• news

ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا ’’پاکستان زندہ باد‘‘ مشن!

ارضی و سماوی کی آفات میں مبتلا افراد کیلئے مسائل و مشکلات ’’ناقابل برداشت‘‘ ہو جائیں یا اس تکلیف دہ صورتحال سے محفوظ رہنے والے افراد کی جانب سے انہیں عدم توجہی کا احساس ہو جائے تو ان کا کسی منفی ردعمل کا شکار ہونا غیرفطری نہیں ہے۔ عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ پریشان حال لوگ ملک کیخلاف باتیں شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب‘ زلزلوں اور فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوکر مسائل و مشکلات کا شکار ہوئے مگر الحمداللہ کسی ایک موقع پر متاثرہ افراد کی جانب سے پاکستان کیلئے منفی جذبات کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں ڈاکٹر آصف جاہ کے کردار کا بھی حصہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ کبھی نہیں ہوا ملک کے کسی بھی حصے میں ناگہانی صورتحال نے جنم لیا ہو اور ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ پہنچنے میں پہل نہ کی ہو۔ ان کی جانب سے متاثرین کی فوری خبرگیری کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متاثرین کے کیمپ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگتے ہیں۔ اسی طرح دیکھا جائے تو ڈاکٹر آصف جاہ کی جانب سے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کیلئے تگ و دو میرے نزدیک ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا مشن بھی ہے۔شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوکر بنوں میں پناہ گزین ہوئے تو میں عمرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں ارض مقدس میں تھا۔ خیال آیا ڈاکٹر صاحب اور انکی جواں ہمت اور خدمت انسانی کے جذبہ سے سرشار ٹیم ضرور وہاں پہنچی ہوگی بلکہ یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ حفظ ماتقدم کے طورپر آپریشن سے پہلے ہی بنوں کے مقام میریان میں ایک کلینک قائم کر دیا گیا تھا جو شمالی وزیرستان سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جہاں سے اب تک کئی ہزار متاثرین کو طبی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔ اس دوران 30 لاکھ سے زائد مالیت کا سامان جس میں کپڑے‘ چادریں‘ کھانے پینے کا سامان‘ واٹر کولر اور بچوں کے گفٹس وغیرہ شامل ہیں‘ متاثرین میں تقسیم کئے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے زیرسرپرستی کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی جانب سے ایک کیمپ میں پانی کی موٹر کا بندوبست کیا گیا جبکہ ان کیلئے سولر اور بیٹری سے چلنے والے پنکھوں کا بھی انتظام کیا گیا۔ڈاکٹر آصف جاہ نے حب الوطنی سے سرشار لہجے میں بتایا کہ ’’شمالی وزیرستان سے آئے ہوئے خوبصورت بچے‘ نیلی اور گرین آنکھوں والی چھوٹی چھوٹی اور معصوم بچیاں ڈری ڈری‘ سہمی ہوئی خوفزدہ ہمارے پاس آتیں‘ لیکن جب انہیں رنگ برنگے گفٹس ملتے تو وہ خوشی سے پھولی نہ سماتیں اور اچھل کود کر اپنی زبان میں خوشی کا اظہار کرتیں۔ انکے چہروں پر رونق اور آنکھوں میں خوشی دیکھ کر ہمارے دل بھی مطمئن ہو جاتے۔ یہ ننھے فرشتے گفٹس پا کر نہ صرف خوشی کا اظہار کرتے بلکہ بلند آواز سے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بھی لگاتے۔ انہیں خوش دیکھ کر بنوں سے IDPS کیمپوں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے سن کر ہماری ٹیم کا بھی سیروں خون بڑھتا اور دل سے دعا نکلتی یا اللہ پاکستان سے بدامنی‘ دہشتگردی ختم فرما اور شمالی وزیرستان کے یہ تمام بھائی واپس اپنے گھروں میں جائیں۔ایک بزرگ کو چیک کرکے ادویات کے ساتھ کیش بھی دیاگیا تو وہ رونے لگا اور کہا میں تو دینے والوں میں سے ہوں‘ میں نے ساری زندگی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا‘ پھر کہنے لگا ’’اللہ پاکستان کو سلامت رکھے۔‘‘ ’’اپنا وطن دا سرو وطن‘‘ کا نعرہ لگایا یعنی اپنا وطن سونے سے بھی قیمتی ہوتا ہے۔ بنوں کے ایک سکول میں جہاں بے گھر افراد کے سو سے زیادہ خاندان مقیم ہیں‘ پانی کی موٹر لگوا کر دی گئی تو وہاں خوشی کا سماں بندھ گیا۔ ’’بچے‘ عورتیں اور مرد اپنے کمروں سے باہر آگئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ڈاکٹر آصف جاہ کو تعاون کیلئے شمالی وزیرستان کے ہی ڈاکٹر فلک ناز کا تعاون حاصل ہو گیا ہے جن کا میران شاہ میں بڑا ہسپتال تھا۔ انہوں نے بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کردیں۔ ڈاکٹر فلک ناز سادہ‘ درویش منش انسان ہیں جن کا میران شاہ میں بڑا گھر‘ مال مویشی بہت کچھ تھا سب چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں بنوں میں آبسے ہیں۔ انہوں نے تاحال رجسٹریشن نہیں کروائی بس دن رات ڈاکٹر آصف جاہ کے قائم کردہ میڈیکل کیمپ میں اپنے بھائیوں کی خدمت میں مگن رہتے ہیں۔ڈاکٹر آصف جاہ کے بقول بنوں کے درددل رکھنے والے مہمان نواز لوگوں نے بے گھر افراد کو اپنے اندر ایسے سمو لیا ہے جیسے مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے چھپا لیتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن