پاکستان کا شمار ان پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے جو ایلیٹ کی بے لگام لوٹ مار کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔ ان کے بچے تعلیم سے محروم ہیں ،ان کا گھرانہ بھوک افلاس کی دلدلوں میں پھنسا ہوا ہے کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون کااثران دیہاڑی دار مزدوروں پر سب سے زیادہ ہوا ہے جو روز کماتے اورروز کھاتے ہیں۔مہنگائی ، بے روزگار ی نے ان کی زندگی اجیرن کررکھی ہے،دوسری طرف یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایلیٹ کا نہ کورونا نے کچھ بگاڑا ہے اور نہ ہی اس طبقے پر مہنگائی کا اثر ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں انسان بھی طبقات میں تقسیم ہیں۔ اس تقسیم کی بنیاد مال و دولت ہے۔حق بات یہ ہے کہ انسانیت کی تقسیم تو بذات خود انسانیت کی توہین ہے۔ اگر تقسیم کی بنیاد تقویٰ ، تعلیم ، ہنر ، محنت یا خلوص ہوتا تو پھر بھی قابل قبول ہوتا لیکن انسانیت کی ایسی بے جوڑ اور بے بنیاد تقسیم باعث شرم ہے ، افسوس کی بات ہے کہ آج ہم انسانیت کے کس مقام پہ کھڑے ہیں۔المیہ ہے کہ طبقاتی تقسیم صرف انسانوں کو ہی نہیں تقسیم کرتی بلکہ ان سے جڑی ہر بات کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے ، ان کے مسائل ، ضروریات ، خواہشات ، خوشیاں، نفع و نقصان اور مصروفیات سب کچھ ہی تقسیم ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں دو لوگ بڑے اطمینان سے ہیں،غریب اور امیر، ان کے علاوہ ایک طبقہ جو ان کے درمیان ہوتا ہے وہ سینڈوچ بن جاتا ہے۔ ان کو ’’مڈل کلاسیئے‘‘ کہتے ہیں، ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ گھر میں آئے روز اس وجہ سے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔امیر قابل نفرت ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے اور غریب قابل رحم ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ نہیں۔غریب کا بچہ سارا بچپن مٹی میں گزار دیتا ہے کیونکہ وہی اس کا کھیل کامیدان ہوتا ہے۔اگر ایلیٹ کلاس کی محفل میں شرکت کی جائے توتاجر ، ڈاکٹر، پائلٹ ،سب بڑے بڑے نام ہوں گے۔ غریب بیچارے کی محفل میں دکاندار ، مزدور ، پلمبر ، ویلڈر یہی احباب ہوں گے۔ ایلیٹ کلاس سے لوگ دور کی رشتے داریاں نکال لیتے ہیں اورسگا چچا اگر غریب ہو تواس کونفسیاتی دبائو میں رکھا جاتا ہے۔
امر واقع ہے کہ جہاں انسان کی ضرورتیں ختم ہوتی ہیں وہیں خواہشات کا آغاز ہوتا ہے۔ ان دونو ں کے درمیان بہت باریک فرق ہے ،یہ فرق طبقہ با طبقہ بدل جاتا ہے۔ غریب کی لا حاصل خواہش امیر کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔گاڑی ، اپنا گھر ، مہنگا موبائل ایسی اوربے شمار چیزیں جو کسی ایلیٹ کی روزمرہ زندگی کی ضرورت ہیں ، غریب کی بس لاحاصل سی حسرت ہے۔ یہ تمام چیزیں کسی امیر کی زندگی کی اتنی ہی ضروری ہیں جتنا غریب کے لئے روٹی کپڑا وغیرہ۔
معاشرے کی حالت دیکھ کر تو لگتا ہے کہ سارا نفع ایلیٹ کلاس اور نقصان غریبوں کے حصے میں آیا ہے۔مڈل کلاسیوں کا خون قلیل تنخواہ اور ضرورتیں پوری نہ ہونے پر جلتا ہے۔مڈل کلاسیا جو کماتا ہے اپنا اور خاندان کا پیٹ ہی مشکل سے کاٹتا ہے۔ اس تقسیم نے انسانو ں کے درمیان اتنی بلند دیواریں کھڑی کر دی ہیں کہ نہ وہ ایک دوسرے کی پکار سن سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کا دکھ درد محسوس کر سکتے ہیں۔ہر طبقے میں آپ کو لوگ تو بہت ملیں گے لیکن طبقات کی تقسیم میں ہم انسانیت کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ اس امرسے انکار ممکن نہیں کہ اس نظام میں غریب کی نجی ملکیت اس کے دو ہاتھ ہوتے ہیں جن سے وہ کھیتوں میں اناج اگاتا ہے ، کارخانوں میں کپڑا بناتا ہے غرض غریب کے دو ہاتھوں کی محنت پر دنیا کی رونقوں کا دار و مدار ہے۔پسماندہ ممالک کا المیہ یہ ہے کہ انہیں نیابتی جمہوریت کی زنجیروں میں جکڑ کر پروپیگنڈ ایہ کیا جاتا ہے کہ ان ممالک میں عوام کو جمہوریت کی نعمت حاصل ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ نیابتی جمہوریت دراصل اشرافیہ کی جمہوریت ہوتی ہے۔ اس جمہوریت میں عوام کو جو حق حاصل ہوتا ہے وہ ووٹ کا حق ہوتا ہے اور اس مشروط حق کا پروپیگنڈا اس طرح کیا جاتا ہے کہ عوام جمہوریت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے پسماندہ ملکوں کے انتخابی نظام کو سمجھنا ہوگا۔ بلاشبہ غریب عوام ووٹ تو ڈالتے ہیں لیکن ووٹ لینے والوں میں غریب طبقات کے نمائندے موجود نہیں ہوتے کیونکہ پسماندہ ملکوں کی پرفریب جمہوریت میں وہی شخص انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے جو کروڑوں روپے انتخابات پر خرچ کرسکے اور اتنی بھاری رقوم انتخابی مہم پر خرچ کرنے کا غریب آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کا شمار پسماندہ ترین ملک میں اس لیے ہوتا ہے کہ اس ملک کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے دن رات محنت کرتی ہے اور مٹھی بھر ایلیٹ اس نیابتی جمہوریت کو لوٹ مار کا ذریعہ بنا لیتی ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان میں 72 سال سے جاری ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہے جس کی داستانوں سے میڈیا اور عدالتیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ اعلیٰ سطح اشرافیہ احتساب کی زد میں ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ طبقاتی تقسیم کے چکر میں انسانیت کی توہین نہ کی جائے۔طبقاتی تقسیم کے چکر میں ایک دوسرے کی تذلیل کرنے کی بجائے ایک ہاتھ سے مدد کریں اور دوسرے ہاتھ کوخبر بھی نہ ہونے دیں، یہی انسانیت ہے۔