پاکستان کے صوبہ پنجاب میں موسم گرما کی شدت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر سال جون اور جولائی میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے، جس کی وجہ سے عام زندگی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کو بھی غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالیہ دنوں میں وزیر تعلیم پنجاب، جناب رانا سکندر حیات نے تعلیمی اوقات کار میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں تاکہ طلبہ کو شدید گرمی کے اثرات سے بچایا جا سکے۔ تاہم، اساتذہ کے اوقات کار میں کسی خاص نرمی کو شامل نہیں کیا گیا، جو کہ باعثِ تشویش ہے۔ خواتین اساتذہ کو تو خاص طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے اپنے بچے بھی اسکول سے واپسی پر ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
اساتذہ کسی بھی معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ وہ ہماری نئی نسل کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے، ہمارے تعلیمی نظام میں ان کے مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ گرمیوں میں طویل اوقات کار کے باعث وہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی دباؤ کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ عوامل نہ صرف ان کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ تعلیمی کارکردگی پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔
ایک تھکا ہوا اور جسمانی طور پر نڈھال استاد تعلیمی عمل میں مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اگر اساتذہ کو آرام دہ ماحول فراہم کیا جائے تو وہ زیادہ توجہ اور محنت سے طلبہ کی تعلیم و تربیت کر سکیں گے۔
مسلسل گرمی میں رہنے سے ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی، بلڈ پریشر میں اتار چڑھاؤ اور دیگر طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جو نہ صرف اساتذہ بلکہ مجموعی طور پر تعلیمی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں۔
جب اساتذہ پر اضافی دباؤ ڈالا جاتا ہے، خاص طور پر سخت موسمی حالات میں، تو وہ ذہنی طور پر تھکن محسوس کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی تدریسی صلاحیتیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔
جب اساتذہ دن بھر کی شدید تھکن کے بعد گھر واپس آتے ہیں، تو وہ اپنی گھریلو زندگی کو مؤثر طریقے سے نہیں گزار سکتے، جو کہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتا ہے۔
خواتین اساتذہ کے لیے یہ صورتحال اور بھی زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ صبح سویرے اسکول جانے اور سخت گرمی میں کام کرنے کے بعد وہ گھر پہنچتی ہیں، جہاں انہیں گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھانی پڑتی ہیں۔ ان میں سے اکثر خواتین نہ صرف ایک ماں بلکہ ایک بیوی، بیٹی اور بہو کے طور پر کئی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔
خواتین اساتذہ کو اسکول میں تاخیر سے فارغ ہونے کے بعد گھر جا کر بھی کئی گھریلو کام سرانجام دینے ہوتے ہیں، جو جسمانی اور ذہنی تھکن میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
اسکول میں اضافی وقت گزارنے کی وجہ سے اکثر خواتین اساتذہ کو اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں مشکلات پیش آتی ہیں، خصوصاً وہ خواتین جو چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں۔
گرمی کے شدید موسم میں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے، خاص طور پر ان خواتین کے لیے جو دور دراز علاقوں میں رہتی ہیں۔
سخت گرمی اور مسلسل کام کی وجہ سے خواتین اساتذہ کو کمزوری، لو لگنے، پانی کی کمی اور دیگر صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسکولوں میں خواتین اساتذہ کو اضافی دفتری کام بھی سونپ دیا جاتا ہے، جو ان کے لیے مزید دباؤ کا باعث بنتا ہے۔
اساتذہ کی سہولت کے لیے حکومت کو درج ذیل اقدامات پر غور کرنا چاہیے:
گرمیوں کے موسم میں اساتذہ کے لیے بھی وہی اوقات کار ہونے چاہئیں جو طلبہ کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اگر طلبہ کو جلدی چھٹی دی جاتی ہے تو اساتذہ کو بھی غیر ضروری دیر تک بٹھانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
انتظامی امور کے لیے اساتذہ کو شدید گرمی میں اسکول میں بٹھانے کے بجائے آن لائن میٹنگز اور دیگر ورچوئل سسٹمز کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف وقت کی بچت ہوگی بلکہ اساتذہ کی توانائی بھی محفوظ رہے گی۔
اگر اساتذہ کو دیر تک اسکول میں رکھا جانا ناگزیر ہو تو کم از کم اسٹاف رومز میں بہتر سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں، جیسے کہ ایئرکنڈیشنرز یا مناسب وینٹیلیشن سسٹم، تاکہ انہیں گرمی کے مضر اثرات سے بچایا جا سکے۔
خواتین اساتذہ کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے، انہیں اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی اور گھریلو ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا سکیں۔ خاص طور پر وہ اساتذہ جو چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں، ان کے لیے خصوصی نرمی دی جانی چاہیے۔
اسکولوں میں پینے کے صاف اور ٹھنڈے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے، تاکہ گرمی میں ہیٹ اسٹروک اور دیگر مسائل سے بچا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے سالانہ یا ششماہی طبی معائنہ بھی لازم قرار دیا جانا چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ گرمیوں میں اساتذہ کے لیے خصوصی ٹرانسپورٹ سہولت فراہم کرے، تاکہ انہیں شدید درجہ حرارت میں پبلک ٹرانسپورٹ کے جھنجھٹ سے بچایا جا سکے۔اسکولوں میں خواتین اساتذہ کے لیے بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز (Daycare Centers) بنائے جائیں، جہاں وہ اپنے چھوٹے بچوں کو رکھ سکیں تاکہ انہیں دورانِ ملازمت بچوں کی فکر نہ رہے۔
اساتذہ کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھنا درحقیقت پورے تعلیمی نظام کے مفاد میں ہے۔ ایک خوشحال اور تندرست استاد ہی بہتر طریقے سے طلبہ کی ذہنی نشوونما کر سکتا ہے۔ جب اساتذہ کو غیر ضروری پریشانیوں سے نجات ملے گی، تب ہی وہ زیادہ محنت، توجہ اور دلجمعی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں
وزیر تعلیم پنجاب، رانا سکندر حیات سے گزارش ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور اساتذہ، خصوصاً خواتین اساتذہ کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ اگر ہمارے اساتذہ جسمانی اور ذہنی طور پر پرسکون ہوں گے، تو وہ زیادہ بہتر طریقے سے نئی نسل کی تعلیم و تربیت کر سکیں گے۔ حکومت کو اساتذہ کی فلاح و بہبود کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کا تعلیمی نظام مزید مستحکم اور ترقی یافتہ ہو سکے۔