گلیلیو پوپ سے معذرت کرکے شاگردوں کے پاس لوٹا تو انہیں بہت مضطرب پایا۔ انہوں نے فوراً اپنے استاد کو آڑے ہاتھوں لے لیا اور پوچھنے لگے ’’استاد بتائیں کیا واقعی سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اور آپ نے جو ہمیں پڑھایا وہ محض خواب و خیال تھا‘‘؟ گلیلیو ایک شرمندہ مسکراہٹ چہرے پر بکھیر کر بولا ’’زمین ہی سورج کے گرد چکر لگاتی ہے اور لگاتی رہے گی، جلد یہ سب کو معلوم ہو جائے گا، مجھے ابھی بہت کام کرنا ہے اس وقت میں اس بحث میں پڑ کر اپنی جان سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا‘‘
جس طرح آج ساری دنیا کو علم ہو چکا ہے کہ سورج ساکن اور زمین متحرک ہے اسی طرح عالمی اشرافیہ کی طرف سے تعریفوں کے پْل باندھنے کے باوجود عام لوگ باخبر ہوتے جا رہے ہیں کہ نیو لبرل ازم کس قدر مضر ثابت ہو رہا ہے معاشرے شہریوں کی بجائے کنزیومر سوسائٹی بنتے جا رہے ہیں جس فری مارکیٹ اکانومی کو لبرل جمہوریت کی بنیاد قرار دیا جا رہا تھا وہ بے قابو ہوکر خون آشام بن چکی ہے اور ہر گھڑی تازہ چراغوں کا لہو پی کر جی رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور دوسرے اداروں کو فنڈز کے ’’احسانات‘‘ کے بوجھ تلے دبا کر من چاہی مرادیں پائی جا رہی ہیں اور دی گئی رقم بھی 10 گنا منافع کے ساتھ واپس لی جا رہی ہے اور بڑھتا ہوا اثر ورسوخ وہ ’’سود‘‘ ہے جو مفت ہاتھ آ رہا ہے۔
دنیا بھر کے عام لوگ لبرل ڈیموکریسی اور نیو لبرل ازم کے نام پر ایک ایسے ’’نظریہ‘‘ کا شکار ہو چکے ہیں جو ان کی زندگیوں کے ہرشعبہ میں ناجائز مداخلت کر رہا ہے، تعلیم، صحت، انصاف کے بنیادی تقاضے، ملازمتیں، باہمی تعلقات، حتیٰ کہ ہمارے سیارے کے قدرتی توازن سمیت ہر چیز ڈانواں ڈول ہو چکی ہے۔
یہ سب تماشے دیکھ کر دل بھی گلیلیو کا شاگرد بن کر خود سے سوال کرتا ہے کہ کیا آزادی کے دعویدار ملک اور معاشرے بھی اصل میں آزاد ہیں یا روسو کے ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ کی طرح ہر جگہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور جو بھی اپنے آپ کو ’’آقا‘‘ تصور کر رہا ہے وہ حقیقت میں ’’غلاموں کا غلام‘‘ ہے۔
حیران ہیں ’’جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے‘‘ خلق خدا ’’جلال بادشاہی‘‘ کے آسمان سے گر کر ’’سرمایہ داری کی بظاہر پرکشش اور درحقیقت انتہائی ہولناک ’’کھجور‘‘ میں اٹک چکی ہے۔ ہمارے دور کے کئی ‘‘گلیلیو‘‘ اصل والے کی طرح خاموش نہیں بیٹھے بلکہ چیخ چیخ کر اس گھٹالے سے آگاہ کر رہے ہیں۔ وہ بتا رہے ہیں کہ جسے ’شور بہاراں سمجھ کر جشن منایا جا رہا ہے وہ خزاں ہے جو پتوں میں چھپ کر رو رہی ہے‘‘ اور بظاہر آزاد نظر آنیوالی فضاؤں کے دامن انسانی آزادیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
نوم چومسکی جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کا ہر دوسرا مضمون اس ’’سراب‘‘ کے پردے چاک کر رہا ہے۔ نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر اقتصادیات، مشیر اور آئی ایم ایف کے عہدیدار رہنے والے جوزف سٹگلز کی کتاب (Road to freedom) نے تو ہوش اڑا کر رکھ دیئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کی ایک آرگنائزیشن کی جائزہ رپورٹ کے مطابق 2006ء سے 2022ء تک دنیا کی آزادیوں میں مسلسل کمی آئی ہے اور یہ سلسلہ پوری شدت سے جار ی ہے سٹگلز کے مطابق 80 فیصد آبادی پہلے ہی آزادی کی نعمت سے کوسوں دور ہے۔ اسی طرح ’’ہوشیار خبردار‘‘ کرنیوالوں میں فرانسس فوکو یاما بھی بڑی شْدومد کے ساتھ نمایاں ہو چکے ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب Liberalism and its discontents) تو ایک طرح کا ’’اعتراف جرم‘‘ ہے اور ’’معافی نامہ‘‘ بھی …اس جرم کا جو انہو ں نے سوویت یونین کے خاتمے کے فوری بعد (history End of ) لکھ کر کیا تھا۔
وہ اپنی نئی کتاب میں بتاتے ہیں کہ لبرل ازم کس طرح پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔
ناصر کاظمی کسی ایسے شہر میں پہنچ گئے تھے جو سارے کا سارا پتھر کا تھا لیکن ہم لبرل ازم اور مغربی جمہوریت کی انگلی تھامے ایسی آبادی کی طرف نکل آئے ہیں جو ساری کی ساری پیسے کی بنی ہے، ایک ایسا دیار جہاں صرف پیسہ بولتا ہے۔ ہزاروں برس سے کچھ بھی تو نہیں بدلا ، ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اور تمام عالم حاجات پوری کرنے اس کے گرد چکراتا پھرتا تھا اور اب بادشاہ کی جگہ پیسے نے لے لی ہے صرف چہرہ بدلا ہے نظام اور قانون منٹو کے افسافے ’’نئے قانون‘‘ کی طرح وہی پرانے کے پرانے ہیں۔
ہم میں سے کوئی ’’میری زندگی میری مرضی‘‘ چِلا رہا ہے تو کوئی اس سے ملتا جلتا نعرہ مستانہ لگا کر سمجھتا ہے کہ فاقہ مستی رنگ لانے ہی والی ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کے ٹھیکیداروں کے معاشرے میں تو صورتحال انتہائی پریشان کن ہے ’’مہد سے لحد‘‘ تک قرض کی نہ ٹوٹنے والی زنجیر میں سب جکڑے ہوئے ہیں۔ گھر، گاڑیاں، سامانِ آسائش سب کا سب بنکوں کے ’’مرہون منت‘‘ ہے۔ اور ایک ایسا قرض گلے پڑا ہے جس سے مرکر بھی جان نہیں چھوٹتی۔ عجب آزادی کا غضب نظام ہے۔ معاشی طور پر کوئی ہاتھ گردن پر ہے تو کسی نے ہاتھ پاؤں جکڑ رکھے ہیں اور حیرت ہے کہ سب آزاد ہونے کے دعویدار بھی ہیں…
دنیا کی ایک دوسرے کے ہاتھوں یہ جکڑ بندی دیکھ کر چینی ہے یا کوئی اور …ایک کہاوت یاد آ گئی۔ ایک کشتی دریا کا سینہ چاک کرتی اِدھر سے اْدھر رواں دواں رہتی تھی۔ ایک روز اس کا مالک ایک کْھونٹا لایا اور کنارے کے کسی ویران مقام پر گاڑ کر کشتی کو رسی سے اس کے ساتھ باندھ گیا۔ حسد کے مارے کھونٹے نے قہقہہ لگا کر کشتی کو کہا ‘‘ بڑے فراٹے بھرتی پھرتی تھی دیکھا کیسا باندھ کر رکھا ہے اب کہیں جا کر دکھاؤ‘‘ کشتی مسکرائی اور بڑے اعتماد سے بولی ’’یہ غلط فہمی کہاں سے پال لی۔ صرف تم نے مجھے باندھ کر نہیں رکھا بلکہ ایک اعتبار سے میں نے بھی تمہیں جکڑ رکھا ہے۔ مجھے اپنے سے باندھ کر تم بھی تو کہیں نہیں جا سکتے کیونکہ جو دوسروں کو جکڑتے ہیں انہیں خود بھی پہرہ دینا پڑتا ہے۔‘‘
بالکل اسی طرح نگرانی کرنے والوں اور نگرانی میں رہنے والوں نے ایک دوسرے کو ’’آزادیوں‘‘ کے نام پر باندھ رکھا ہے اور اس پر غضب یہ ہے کہ نگران خوش ہیں شکار خود دام میں آ گیا ہے حالانکہ دونوں بھنور کی طرف بہہ رہے ہیں کیونکہ ہمارے عالمی ارباب اختیار آزادیوں اور خود مختاریوں کے نام پر چلتے چلتے سارے نظام کو ایک ایسی بند گلی میں لے آئے ہیں جہاں کچھ بھی بہتر اور متوازن دکھائی نہیں دے رہا۔ دھوکے دینے اور کھانے والے دونوں پریشان ہیں۔ مالیاتی عدم توازن سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آ رہی دوسری طرف امن اور رواداری کی باتیں اسی طرح ’’اْڑن چْھو‘‘ ہو رہی ہیں جس طرح بقول اقبال? ’’حمیت تیمور کے گھر سے‘‘ ہو گئی تھی۔
پچھلے سوا سو برس میں دنیا کمیونسٹ‘ سوشلسٹ انقلابوں سے ہوتی ہوئی لبرل جمہوریتوں کا دامن تھام کر ’’سامان تو 100 برس کا‘‘ کر چکی ہے لیکن اسے پل کی خبر نہیں رہی اور کسی وقت بھی دھڑن تختہ ہو سکتا ہے۔
کاش انسانیت جھوٹ اور فریب کا دامن تھام کر ایک ایسی سْرنگ میں نہ داخل ہوتی جو نہ صرف بند تھی بلکہ مکرو فریب کے پتھروں سے لبریز ہو کر داخلی راستہ بھی کھو بیٹھی ہے۔
عالمی طور پر جتنی خرابیاں پیدا کی جا چکی ہیں معلوم نہیں ان کا سدھار ممکن ہو سکے گا یا بس بنجارہ سب کچھ لاد کر چلتا بننے کا منتظر رہ گیا ہے لیکن سب کو خصوصاً دھوکہ دینے والوں کو ایک بار اندھیری سْرنگ میں سے کوئی راستہ ضرور تلاش کرنا چاہئے۔ ایک سچا راستہ جو انسانیت کو آزادی کے تمام دھوکوں سے نکال کر اضطراب کی زندگی سے اطمینان کی طرف لے آئے۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے گا تو ہی انکی بادشاہی قائم رہے گی ورنہ آسمانوں پر بربادیوں کے مشورے ہوتے تو صاف دکھائی دے رہے ہیں۔
فی الوقت تو ’’شیشوں کا مسیحا ‘‘ کوئی دکھائی نہیں دیتا بقول فیض:
کہاں سے آئی نگار صبا‘ کدھر کو گئی
ابھی چراغ سرراہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانء شب میں کمی نہیں آئی!
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
٭…٭…٭