حساس
سعداختر
hassas_f@yahoo.com
ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کی تاریخ دہشت گردی کے واقعات سے عبارت ہے- اس کے تانے بانے صرف پاکستان ہی نہیں، افغانستان سے بھی ملتے ہیں- ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں تخریب کاری کی جتنی بھی کارروائیاں ہوتی ہیں انہیں افغانستان سے آپریٹ کیا جاتا ہے- پاکستان میں عرصہ حیات تنگ ہو جانے کے بعد ٹی ٹی پی سے وابستہ دہشت گرد خیبرپختونخوا سے ملحق افغانستان کے سرحدی زون میں اقامت اختیار کئے ہوے ہیں- جنہیں افغان طالبان اور افغان حکومت کی بھی مکمل سپورٹ اور سرپرستی حاصل ہے- اس سپورٹ اور سرپرستی کا نتیجہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان ملک میں بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں- ان کارروائیوں میں انہیں مقامی سطح پر بھی ہر طرح کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے- ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے- وہ اب یہاں فنکشنل نہیں رہی لیکن چوری چھپے اْس کی مذموم سرگرمیاں جاری رہتی ہیں- ان سرگرمیوں کا بڑا مرکز کے پی کے ہے جو ٹی ٹی پی کا ذیلی ہیڈ کوارٹر بھی ہے-
تحرک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان اور پاکستان میں قائم ایک دہشت گردتنظیم ہے جو 2007ء میں تشکیل دی گئی- ٹی ٹی پی کا مقصد پاکستانی حکومت کو صوبہ خیبر پختونخوا (جسے باضابطہ طور پر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کہا جاتا ہے) سے باہر دھکیلنا اور شرعی قانون نافذ کرنا ہے- ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر القاعدہ کے قریب ہے- وہاں سے ہی دہشت گردی سے متعلق رہنمائی حاصل کرتی ہے- جبکہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بھی ٹی ٹی پی پر انحصار کرتے ہیں- افغانستان اور پاکستان سے ملحق علاقے ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں- اور وہ القاعدہ کے عالمی دہشت گرد نیٹ ورک اور اس کے ارکان کی آپریشنل و مہارت دونوں تک رسائی رکھتی ہے-
ٹی ٹی پی نے ملکی مفادات کے خلاف متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کی ناصرف ذمہ داری قبول کی ہے بلکہ پچھلے کچھ عرصہ میں ٹی ٹی پی کی جانب سے سیکورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں ڈرامائی اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے- رواں برس ٹی ٹی پی کی جانب سے 147 حملوں کا دعویٰ کیا گیا- اگر 2024ء کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ٹی ٹی پی نے سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہکاروں پر 1,758 حملے کرنے کا دعویٰ کیا- ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعداد و شمار اور دعوؤں کے مطابق ان حملوں میں 1284افراد ہلاک اور 1,661 زخمی ہوئے- جہاں ایک طرف اس کالعدم تنظیم (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے- وہیں ان کی پروپیگنڈہ مہم بھی تیز ہوتی دکھائی دے رہی ہے- ان کے حق میں استعمال کئے جانے والے میڈیا ذرائع کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے- مبصرین کا کہنا ہے اگرچہ پاکستان طالبان کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے لیکن ان کارروائیوں کا ٹی ٹی پی کے میڈیا آپریشن پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا-
پاکستانی طالبان کے بڑھتے میڈیا پروپیگنڈے کو روکنے میں حکومت کو درپیش مشکلات پر بات کرنیسے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ پروپیگنڈے کے لیے استعمال کئے جانے والا ٹی ٹی پی کا میڈیا نیٹ ورک کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟
ٹی ٹی پی کا یہ میڈیا نیٹ ورک ’’عمر میڈیا‘‘ کے نام سے اپنی شناخت رکھتا ہے-جو افغان طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کے نام پر رکھا گیا ہے- 2021ء کے بعد سے یہ میڈیا ونگ بہت متحرک اور اپنی سرگرمیاں تیز کئے ہوئے ہے- رواں برس جنوری کے مہینے میں عمر میڈیا نیٹ ورک کی از سر نو تشکیل بھی کی گئی- جس کے تحت مرکزی میڈیا کمیشن کے علاوہ آڈیو، ویڈیو، میگزین، ایف ایم ریڈیو اور سوشل میڈیا سے متعلق پانچ مختلف شعبوں کا اعلان کیا گیا-
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق عمر میڈیا کے نو رکنی مرکزی میڈیا کمیشن کی سربراہی کالعدم تنظیم کے کمانڈر منیب جٹ کے سپرد کی گئی ہے جو ماضی میں ’’القاعدہ‘‘ جیسی عالمی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ منسلک رہ چکا ہے- عام تاثر ہیاور اس میں حقیقت بھی نظر آتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نہ تواسلام کی نمائندہ ہے، نہ مسلمانوں کی- یہ گروہ نہ صرف معصوم انسانوں کی جانیں لیتا ہے بلکہ دین اسلام کے اس پیغام کو بھی مسخ کرتا ہے جو قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے-
مذہبی لحاظ سے اسلام نے کسی ایک بے گناہ کے قتل کو بھی پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے- ٹی ٹی پی کے حملے، دھماکے اور دہشت گردانہ کارروائیاں نہ صرف شریعت کے خلاف ہیں بلکہ اللہ اور اْس کے رسول کے احکامات کے بھی خلاف کھلی بغاوت ہیں- سماجی طور پر یہ گردہ پاکستانی معاشرے میں نفرت، خوف اور تقسیم کر فروغ دیتا ہے- تعلیمی اداروں، خواتین اور بچوں پر حملوں کو ہم کسی بیمار ذہنیت کی علامت ہی قرار دے سکتے ہیں-
دہشت گردی کے واقعات سے ناصرف اب تک ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں بلکہ ہمیں معاشی طور پر بھی بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے جو اربوں میں ہے- ٹی ٹی پی نے اپنی مذموم سرگرمیوں سے ناصرف سرمایہ کاری بلکہ سیاحت اور ترقی کے تمام راستے بھی بند کئے جس کا نتیجہ عدم ترقی کی صورت میں سامنے آیا ہے-
تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکنے والوں کو نہ تو ہم انسان کہہ سکتے ہیں اور نہ انہیں مجاہد قرار دیا جا سکتا ہے- درحقیقت یہ انسانیت کے دشمن ہیں- جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں- بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار کے قریب جنگجو موجود ہیں- جو پاکستان پر حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں- اْن کے ٹھکانے پہاڑوں میں ہیں- جہاں وہ دہشت گردی کی ٹریننگ بھی حاصل کرتے ہیں- ان دہشت گردوں کو بھارت سے بھی فنڈنگ ہوتی ہے- دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے اسلحہ بھی وہاں سے فراہم کیا جاتا ہے- افغان حکومت کی بھی ان دہشت گردوں کو مکمل سپورٹ حاصل ہے- پاکستان اگرچہ اس حوالے سے اظہار خیال کرتا رہتا ہے اور اسلام آباد میں متعین افغانی سفیر کو طلب کر کے احتجاج بھی کیا جاتا ہے لیکن افغان حکومت کا کوئی خاص ردعمل سامنے نہ آنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کی سپورٹ سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتی جو ایک تکلیف دہ امر اور بین الاقوامی ضابطوں اور قوانین کی کھلی خلاف وزری ہے-
افغانستان اس وقت بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے- وہاں ٹریڈ اور تجارت نہیں، جس سے افغانستان کے معاشی حالات کافی بگڑ چکے ہیں- مگر طالبان حکومت کو پھر بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس سلسلے کو ایسے ہی جاری رکھیں گے تو آگے چل کر اْن کی مشکلات کتنی بڑھ سکتی ہیں- دنیا سے الگ رہ کر اور ہمسائیوں سے تعلقات بہتر نہ رکھ کر آپ اپنے پاؤں پر کبھی کھڑے نہیں ہو سکتے- ضروری ہے کہ دنیا سے آپ کے رشتے استوار ہوں- آپ ان سیتجارت کریں اور باہمی رابطے بڑھائیں- بصورت دیگر آپ بربادی کی طرف بڑھ جائیں گے-
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اس وقت 20 سے زیادہ دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جو خطے، دنیا کی سلامتی اور استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہیں- کابل حکام داعش کے خلاف کارروائیاں تو کر رہے ہیں لیکن القاعدہ سے منسلک رہنے والی ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ سمیت دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں اب تک ناکام ہیں- شاید وہ چاہتے ہی نہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو- پاکستانی مندوب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین استعمال کرنے والی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے- اْن کے بقول ٹی ٹی پی ہی پاکستان میں فوج اور شہریوں پر حملوں میں ملوث ہے- مزید یہ کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور پاکستان پر حملے کیے جاتے ہیں-
افغانستان کے بعض سرحدی علاقے ان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں لیکن افغان حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی- پاکستان تمام حالات کو دیکھ رہا ہے اور بڑے صبرو تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے- پاکستان ایک بڑی فوجی قوت ہے- ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے اْس کی کبھی خواہش نہیں رہی کہ افغانستان پر لشکر کشی کرے- لیکن کب تک ----- پاکستان ایک زبردست فوج رکھتا ہے- کبھی حملے کی نوبت آئی تو باقی کچھ نہیں بچے گا- ہماری بہت مضبوط اور فعال انٹیلی جنس ہے- ہمارے پاس تمام رپورٹس موجود ہیں کہ افغانستان کے کس علاقے میں کتنے دہشت گرد موجود ہیں اور اْن کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ اللہ نہ کرے ایسا کوئی وقت آئے کہ پاکستان کو افغانستان کے اندر گھس کر کوئی کارروائی کرنی پڑے-