پہلے یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ امریکہ پاکستانیوں کی آمد پر پابندیاں لگا رہا ہے۔ پھریہ خبر آئی کہ ایوانِ نمائندگان میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر امریکہ میں داخلے کی پابندی کا بل ٹرمپ کی پارٹی کے جوولسن اور بائیڈن کی جماعت کے پینٹا نے پیش کر دیا ہے۔ آرمی چیف کا اس بل میں خصوصی ذکر ہے۔ پابندیوں کی وجہ عمران کی قید،ان پر مقدمات وغیرہ کوقرار دیا گیا ہے۔ یہ بل امریکہ کے اپنے مفادات سے لگا نہیں کھاتا۔ آرمی چیف کا تذکرہ نہ ہوتا تو بل آسانی سے منظور ہو سکتا تھا۔پھر خبر آئی کہ امریکہ نے پاکستانی انیس کمپنیوں پر پابندی لگادی ہے۔ ان کمپنیوں پر امریکہ کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام ہے۔ امریکہ کی طرف سے پہلے بھی ایسی پابندیاں لگتی رہی ہیں مگر اب کی، اس لئے حیران کن ہیں کہ ٹرمپ پاکستان سے بڑے مطمئن بلکہ خوش دکھائی دے رہے تھے۔قربتوں کا سلسلہ اچانک شروع ہو چکا تھا۔ زلمے خلیل زاد، رچرڈ گرینل، جوولسن جسے ٹرمپ کے ساتھیوں نے تو پوں کا رخ پاکستان کی طرف کیا ہوا تھا۔ یہ فری عمران خان کی بات کر رہے تھے۔ گرینل دوقدم پیچھے، زلمے فرنٹ پر تھے۔ جوولسن نئی قرارداد لا کر ان سے آگے نکل گئے۔ زلمے کے گزشتہ بیانات پر جو بائیڈن انتظامیہ نے چیں بجیں ہوتے ہوئے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ فروری کے انتخابات کے بعد ان کے بیان پر ہماری وزارت خارجہ، خواجہ محمد آصف جیسے جوشیلے وزیر آگ بگولہ نظر آئے۔ شدید رد عمل کا سرکاری سطح پر اظہار کیا گیا۔ تحریک انصاف کو امید واثق تھی کہ ٹرمپ ادھر صدر کا حلف اٹھائیں گے اْدھر خان صاحب جیل سے باہر ہونگے۔ الیکشن سے پہلے ٹرمپ نے عمران خان کو اپنا دوست کہا تھا۔ اْس وقت وہ صدارت کے امید وار تھے۔یہ ان کا سیاسی بیان ہو سکتا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد وہ صدر کے ذہن سے سوچتے اور فیصلے کرتے ہیں۔ہماری حکومت کو بھی نئی امریکی انتظامیہ میں موجود عمران خان کے حامی عناصر کے سر گرم ہونے کا اندازہ تھا۔ اپنی سفارت کاری ہوا دوش کے رکھے ہوئے چراغ کی مانند رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ایوان نمائندگان میں گزشتہ سال جون میں پیش کی گئی قرارداد سات کے مقابلے میں 368 کی اکثریت سے منظور ہوئی۔ اس میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیاگیا۔سفارتکاری تو اب بھی سطحی ہے، غیبی مدد آ جائے تو شْکر ہے۔
امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے شریف اللہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا، جسے 2022ء میں کابل ایئر پورٹ پر بلاسٹ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا تھا۔ بعد میں وہ ماسٹر مائنڈ ،سرغنہ اور خطرناک کے بجائے عام ملزم ٹھہرایا گیا۔اس بلاسٹ میں 13 امریکی اور 170 افغانی مارے گئے تھے۔ امریکہ نے شریف اللہ کی گرفتاری کا مطالبہ کب کیا؟ مگر دنیا کو پتہ صدر ٹرمپ کی زبانی کانگریس میں ان پہلے خطاب سے چلا۔ انہوں نے پاکستان کا اس گرفتاری اور دہشتگردی کی جنگ میں ساتھ دینے پر گرم جوشی سے شکریہ ادا کیا۔ یہی امریکہ کے ساتھ سرد مہری سے گرم جوشی کی طرف آتے تعلقات کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔افغانستان کے اندر سے پاکستان میں دہشتگردی ہوتی ہے۔ پاکستان اس پر تحفظات کے اظہار کے ساتھ شدید احتجاج کرتا ہے اور ایک دو مرتبہ افغانستان کے اندر دہشتگردوں کے ٹھکانے بھی تباہ کئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان سے اظہارتشکر کرتے ہوئے اپنے اْسی خطاب میں افغانستان کی بھی خبر لی۔کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے انخلا کے دوران حماقت کی۔ اسلحہ اور گاڑیاں وہیں چھوڑ آئے۔ وہ سب واپس لیں گے۔ اس پر ہمارے حکام بھی جوش میں آگئے کہا گیا، ہم طالبان سے اسلحہ لے کر امریکہ کر واپس کرائیں گے۔
ٹرمپ کے بیانات سے قبل تک ہم سافٹ سٹیٹ اور ہارڈ سٹیٹ کے بیچ میں تھے ۔امریکہ سے تازہ قربت کے ساتھ ہی یکدم اور یکسر ہارڈ سٹیٹ کی جانب آنے کااعلان کرکے باقاعدہ ایک کثیر رکنی کمیٹی خدوخال طے کرنے کے لیے بنادی۔ ہارڈ سٹیٹ کی صورت میں ہم امریکہ کو اپنی پشت پر کھڑا دیکھ رہے تھے۔دونوں کا پھرسے مشترکہ دشمن افغانستان ٹھہرا۔ اْدھر دھڑم سے گیم چینج ہو گئی۔ اچانک خبر آئی کہ امریکی وفد افغانستان میں وارد ہواہے۔ وہ وفد دو تین سال سے افغانستان میں قید یرغمالی جارج گلیزمین کو رہا کرا کے ساتھ لے گیا۔
افغانستان کے ساتھ ایسے معاملات امریکہ پاکستان کے توسط سے طے کرتا رہا ہے حتیٰ کہ نائن الیون کے بعد افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے امریکہ نے مشرف کے پاکستان کو پتھر کے زمانے کا ٹریلر دکھا کر اپنے ساتھ کھڑا کر لیا تھا۔ اب یہ وفد افغانستان آیا تو قطرکو پاکستان کے متبادل کے طور ساتھ رکھا۔ اس وفد میں زلمے خلیل زاد بھی تھے۔امریکی وفد کے ساتھ افغان انتظامیہ یکجہتی و یگانگت کا اظہار کرتی رہی۔ وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفد کی ملاقات امکانات اور توقعات سے زیادہ حوصلہ افزا اور پر جوش رہی۔ امریکہ پاکستان سے شریف اللہ کو لے گیا، کبھی ریمنڈ ڈیوس بھی ہم نے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔رمزی یوسف ایمل کانسی، عمر سعید شیخ حتیٰ کہ عافیہ صدیقی کو بھی ہم امریکہ کے حوالے کر چکے ہیں۔کچھ ہی ہفتے قبل وینزویلا سے چھ امریکی رہا کرائے گئے تھے۔صدر مادورد سے جس لہجے میں وہاں جانیوالے رچرڈ گرینل نے بات کی؟۔ بس گریبان نہیں پکڑا۔ " یہ یرغمالی ہمارے حوالے کر دو ورنہ نتائج کے لئے تیار رہو"۔ نکولس مادورو نے چوں چراں نہیں کی۔ 2009ء میں سابق صدر بل کلنٹن شمالی کوریا میں قید امریکی خاتون صحافیوں لورالنگ اور یونالی کو رہا کرا لائے تھے۔ کلنٹن نے کو ریائی قیادت سے انسانی ہمدردی پر رہائی کی درخواست کی تھی۔ امریکہ کو علم ہیکہ کس کے ساتھ کس لہجے میں بات کرنی ہے۔افغانستان اور امریکہ کے مابین شدت کی برف پگھل رہی ہے۔ دوریاں قربتوں میں اور دشمنی دوستی میں بدل رہی ہے۔
جہاں پاکستان کی سفارت کاری تھوڑی گرم اور سرگرم نظر آئی۔ زلمے خلیل زاد اور امر یکی نمائندہ خصوصی ایڈم بوہلر ادھر افغانستان سے جارج گلیز مین کو لے کر روانہ ہوئے اْدھر ہمارے نمائندہ خصوصی صادق خان افغانستان جاپہنچے۔ ان کی انہی افغان وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی جو ایک روز قبل امریکیوں سے مصافحے اور معانقے کررہے تھے۔ یہ ملاقات بھی توقعات کے برعکس حوصلہ افزا اور امید افزاء رہی۔ پاکستان افغانستان تعلقات کشیدگی کی انتہا پر ہیں۔ جہاں ہوشمندانہ سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ ہارڈ سٹیٹ کے سر دست حالات نہیں ہیں۔ دو ہفتے قبل ضرور تھے۔ اب امریکہ اورافغانستان قریب آ رہے ہیں۔ امریکی وفد کے کابل کے دورے کے بعد طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ طالبان اب امریکہ کو قیامت تک دشمن نہیں سمجھیں گے۔ امریکہ کے ساتھ باضابطہ تعلقات چاہتے ہیں۔ ایسے تعلقات دونوں کے مفاد میں ہیں۔افغانستان اور بھارت پہلے ہی یکجہت ہیں۔ امریکہ بھی ساتھ ملتا ہے تو یہ تکون مضبوط ہوگی جو پاکستان کے لئے خطرناک ہوسکتی ہے۔ تکون ضرور بنے، برقرارر ہے اور مضبوط بھی ہو مگروہ پاکستان امریکہ افغانستان کی صورت میں ہو۔یہ خوب رہے گی۔ اس تکون کا دارو مدار ہماری خارجہ پالیسی پر ہے۔