اے پی سی چھوڑیں'' مسائل کی طرف توجہ دیں

سردار نامہ…وزیر احمد جو گیزئی 
wazeerjogzai@gmail.com
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی 

مسئلہ اے پی سی کا نہیں  نہ ان کیمرہ اجلاس میں فیصلے کرنے کا ہے، اس طرح سنگین نوعیت کے ایشو کا تقاضا برملا فیصلہ ہوا کرتے ہیں اس کے لیے  ٹورتھ اینڈ ریحیبلیشن کمیشن بنانا ضروری ہوتا ہے جس کی کارروائی اوپن ہو۔ اس میں میڈیا اور دانشور شامل اور یونیورسی انتظامیہ انوالو ہوں غرض کہ عوام کے ہر طبقے کی نمائندگی ہو تب جاکر نتیجہ خیر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اے پی سی اور ان کیمرہ اجلاس سے کبھی مسائل حل ہوئے نہ ہوں گے !!آپ  پوری تاریخ دیکھ لیں مشرقی پاکستان کا المیہ ہمارے سامنے ہیں جس سے ہم نے سبق سیکھنے کی کوشش کی نہ آئندہ ارادہ ہے گویا سبق سیکھنا حرام ہے۔ ساؤتھ افریقہ میں کیا کچھ نہیں ہوا اس قوم کو نیلسن منڈیلا کی شکل میں مثالی لیڈر ملا جس نے ساؤتھ افریقہ میں نفرت کی سیاست کو پیار ومحبت میں بدل دیا یوں  منڈیلا سماجی' سیاسی اور عوامی انقلاب کا سرخیل ٹھہرا۔ ایک ہم ہیں جو صوبائی اور قومی مسائل پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ہم پہلے بھی اظہار کر چکے ہیں کہ یہاں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے سوا باقی سب پارٹیاں کاغذی اور مصنوعی ہیں سیاسی جماعتوں کو عوام میں ہونا لازم ہوتا ہے جب تک سیاسی جماعت کی بنیاد عوام میں نہیں ہوگی وہ جماعت محض بیورکریٹ نمونہ اور شو پیس رہیگی ،یہاں بیوروکریٹ جس طرح تبدیل ہوتے ہیں اسی طرز پر سیاسی جماعتوں کے سیکرٹری جنرل تبدیل کئے جاتے ہیں۔کاش  پاکستان کی  سیاسی پارٹیوں میں بھی جمہوریت ہو۔ یہ درست ہے کہ الیکشن کمیشن کی چھتری تلے پارٹیوں میں الیکشن ہوتے ہیں مگر وہ سارا عمل نامزدگیوں سے آگے نہیں جاتا، سیاسی جماعتوں کا عوام کے تابع ہونا لازمی امر ہے جب تک پارٹیاں عوام میں موجود رہیں گی مسائل بتدریج حل ہوتے رہیں گے لہذا آج کے جو مسائل ہیں اس میں صرف اور صرف عوام کی شرکت بڑا ایشو ہے ان کے بغیر کوئی حل تسلی بخش ہوگا نہ دیرپا ہوگا، عوامی مسائل حل کئے بغیر اس طرح کی تمام سرگرمیاں بے مقصد اور بے سود رہیں گی۔ماضی سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہم قومی اور صوبائی الیکشن تو کرادیتے ہیں مگر لوکل باڈیز حکومتوں کی تشکیل سے بے زار ہوتے ہیں اگر الیکشن کمیشن بلدیاتی الیکشن کرانے کا فرض پورا کرلے تو تحصیل اور شہری سطح کی حکومتوں سے جڑے مسائل حل ہوتے رہیں گے۔ لوکل گورنمنٹ قائم ہوگئیں تو ڈویلپمنٹ کے ساتھ لوگوں کے مقامی مسائل بتدریج حل ہوسکتے ہیں۔جنرل ضیاء￿  دور میں عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز دینے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا وہ آج تک جاری ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم پی اے اور  ایم این اے کی بجائے ترقیاتی فنڈز لوکل گورنمنٹ کو فنڈز دیں وہ خود سکیمیں بنا کر لوگوں کی خدمت کریں ایم پی اے اور ایم  این اے کو قانونی سازی تک محدود رکھیں جو غور ویمحیص کے بعد سا ل دو سال میں قانون بنائیں۔ رمضان سے قبل دس منٹ میں دو تین قانون بنائے گئے کیا اس مختصر عرصے میں بننے والا قانون دیرپا ہوسکتا ہے ؟

ای پیپر دی نیشن