چیف جسٹس کی جانب سے جلد کیس سننے کی نوید


ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ

چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی 17 مارچ کو سپریم کورٹ بار کے ٹی ٹاک کارنر تشریف لائے۔ وہاں پر سپریم کورٹ کے وکلا سید منظور گیلانی، شاہ خاور، خالد عباس خان، حافظ احسان کھوکھر، ملک شکیل، صداقت چودھری اور عامر ملک موجود تھے۔ چیف جسٹس کے ہمراہ رجسٹرار سپریم کورٹ بھی تھے۔ ان کی آمد سے وکلا کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، سب نے انہیں ویلکم کیا۔
اس موقع پر انہوں نے خوشخبری سنائی کہ اب پیٹیشن دائر کرنے کے پندرہ دن بعد ہی کیس لگ جایا کرے گا۔ چیف جسٹس کے بار وزٹ سے یہ پیغام ملا کہ وہ وکلا اور عوام کے مسائل سے واقف ہیں اور ان کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اپنی 12 سالہ وکالت میں یہ پہلا موقع دیکھا کہ سپریم کورٹ کا کوئی چیف جسٹس بار کا وزٹ کر رہا ہو۔ بنچ اور بار کو گاڑی کے دو پہیے کہا جاتا ہے، لیکن اب تک ایک پہیہ ٹریکٹر اور دوسرا سکوٹر نظر آتا تھا۔ آج پہلی بار دونوں پہیے ایک جیسے لگے!
وکلا کا کام کیس پلیڈ کرنا اور ججز کا کام کیس سننا اور فیصلہ لکھنا ہوتا ہے۔ پہلے وکیل کیس جیتنے کی دعا کرتے تھے، مگر اب عزت سے کیس سننے اور ریلیف ملنے کی دعا کرتے ہیں۔ کچھ عرصے سے ججز نے جیسے کیس نہ سننے کی قسم کھا رکھی تھی۔ وکیل روسٹرم پر پہنچتے ہی جج کی آواز آتی "ڈس مس"! اگر وکیل کہتا "جناب، مجھے سن تو لیں" تو آواز آتی "جرمانہ!"۔ پھر فیصلوں میں وہ کچھ لکھا جاتا جو کسی وکیل نے کہا ہی نہ ہو، یوں وکیل دو بار شرمندہ ہوتا تھا: ایک بار جب بولنے نہیں دیا جاتا، دوسری بار جب فیصلہ پڑھتا۔
ان حالات میں کچھ میرے جیسے وکلا وکالت سے کنارہ کش ہو گئے اور بار میں صرف گپ شپ کے لیے آتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں "ٹی ٹاک کارنر" دوستوں نے بنا رکھا ہے، جہاں ملک بھر کے وکلا آ کر اپنی "اندر کی پھڑاس" نکالتے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں سدا وقت ایک سا نہیں رہتا۔
جب سے 26ویں آئینی ترمیم نے کروٹ لی ہے اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے چارج سنبھالا ہے، وکلا کی عزت محفوظ ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے سیاسی اور غیر سیاسی ججز کے بنچ بنتے تھے اور سیاسی فیصلے ہوتے تھے، مگر اب آئینی اور غیر آئینی بنچ بنتے ہیں اور فیصلے قانونی آ رہے ہیں۔ ہم نے اس سپریم کورٹ میں ججز کو سیاست کرتے اور سیاسی فیصلے لکھتے دیکھا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر وزیراعظم جیسی شخصیات کو پھانسی لگتے بھی دیکھ چکے ہیں۔
افتخار چوہدری کی تحریک اور جنرل حمید گل کا انتباہ
زمانہ طالب علمی سے کالم لکھنے کا شوق ہے، اور وکالت کے ساتھ ساتھ یہ شوق بھی چلتا رہا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں، میں بھی دوسروں کی طرح یہی سمجھتا تھا کہ انقلاب آ جائے گا، مگر جو افتخار چوہدری کو جانتے تھے، وہ کہتے تھے کہ یہ سب ڈرامہ ہے۔
افتخار چوہدری جب کوئٹہ بار سے خطاب کے لیے جا رہے تھے تو نسیم انور بیگ (جن کا ذکر قدرت اللہ شہاب کی "شہاب نامہ" میں بھی ہے) نے مجھے فون کر کے کہا "چیف جسٹس کو کوئٹہ جانے سے منع کرو"۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کیوں؟ انہوں نے کہا "یہاں میرے پاس آؤ، جنرل حمید گل وجہ بتائیں گے"۔ میں جب ان کے ہاں پہنچا تو جنرل صاحب فیملی کے ساتھ وہاں موجود تھے۔
جنرل صاحب کا پیغام افتخار چوہدری تک پہنچایا، تو انہوں نے کہا "جنرل صاحب سے بات کروا دو"۔ پھر جنرل صاحب نے انہیں فون پر بتایا کہ "آپ کی گاڑی کو جامر سے بند کر دیا جائے گا، اور جب آپ باہر نکلیں گے تو اسنائپر شوٹر آپ کو شوٹ کر دے گا"۔ بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ "گاڑی سے نہ نکلنا، بلکہ اسے 100 فٹ تک رسی سے کھینچو، پھر وہ دوبارہ اسٹارٹ ہو جائے گی"۔ یہی ہوا، اور افتخار چوہدری کی جان بچ گئی۔ مگر بعد میں، انہوں نے احسان فراموشی کا ثبوت دیا۔
جب سپریم کورٹ میں ریلوے کا سوموٹو کیس آیا، میں نے اس میں فریق بننے کی درخواست دی، مگر مجھے پارٹی نہ بنایا گیا۔ جبکہ شیخ رشید، جو ہمیشہ افتخار چوہدری کے خلاف بولتا رہا، فوراً پارٹی بنا دیا گیا۔ اس پر میں نے اخبار میں کالم لکھا "چیف! تیرے جانثار، شرمسار شرمسار!"۔
جب سپریم کورٹ میں پھانسی کے بعد اپیل سنی گئی!
ایک کیس میں، سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بنچ میں مجرم کی سزائے موت کے خلاف اپیل زیر سماعت تھی، لیکن کیس میں انکشاف ہوا کہ ملزم کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے!۔ یہ سن کر زمین ہل جانی چاہیے تھی، مگر یہاں کچھ نہ ہوا۔ بس فائل بند کر دی گئی۔
یحییٰ آفریدی کی آمد: ایک خوش آئند تبدیلی
ان حالات میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا بار میں آنا، مسکرا کر وکلا سے ملنا، جلدی کیس لگانے کی نوید سنانا، یہ سب بہت اچھا ہی نہیں، بہت اچھا لگا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ بنچ اور بار واقعی گاڑی کے دو پہیے ہیں، اور آج یہ دونوں پہیے برابر نظر آئے۔
ویلڈن چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب! آپ پہلے چیف جسٹس ہیں جو بار کا وزٹ کر کے وکلا اور سائلین کے مسائل سننے آئے۔ اس سے دوری کم ہو گی، فاصلے ختم ہوں گے، اور عدالتی نظام میں بہتری آئے گی۔
میری کالموں پر مبنی کتاب حال ہی میں شائع ہوئی، جس کی ایک کاپی میں ججز کو دے چکا ہوں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب نے کتاب ملنے پر شکریہ کا خط لکھا۔ امید ہے کہ عید کے بعد اس کی رونمائی کی تقریب بار میں ہو گی۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار محمد سلیم خان صاحب نے بار وزٹ کر کے پہلا بارش کا قطرہ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایک دن ٹی ٹاک کارنر میں میرے ساتھ بیٹھے چائے پی نہیں، چکھی تھی۔ اگر ججز صاحبان کبھی کبھار بار میں چائے پینے آ جائیں تو دوریاں ختم ہو سکتی ہیں اور واقعی بہتری آ سکتی ہے!

ای پیپر دی نیشن