ایک بار بار کا سنا ہوا، بہت ہی گھسا پٹا ہوا لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ پورا سنانے کی ضرورت نہیں، لطیفہ اس محترمہ کا ہے جو گھر سے روٹھ کر گائوں کے باہر جا بیٹھی تھی، اس امید کے ساتھ کہ کوئی نہ کوئی منانے ضرور آئے گا لیکن شام ڈھل گئی ، سورج ڈوب گیا اور گھر سے وٹس ایپ پر کوئی پیغام تک نہ آیا تو چار و ناچار کیا کرتی، گائوں جانے والی ایک گائے کی دم سے لپٹ گئی اور میں گھر نہیں جائوں گی کا شور مچاتے مچاتے اسی گائے کی دم سے چمٹی ، گھسٹتی اپنی گلی جا پہنچی۔
تو شانِ نزول لطیفے کی پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجہ کا وہ ’’فراخدلانہ‘‘ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک 9 مئی کے واقعات پر ندامت، اعتراف جرم اور معافی کا سوال ہے تو اس پر تنہا بات تو ہم نہیں کریں گے، ہاں اور بھی معاملات بات چیت کے ایجنڈے پر ہوں تو 9 مئی پر بھی بات کر لیں گے اور ہاں، ’’معاون‘‘ کا لفظ ہم استعمال نہیں کریں گے۔ جب بات چلے گی تو پھر کچھ نہ کچھ بات بن بھی سکتی ہے۔
کیا سمجھے؟۔ گول مول معافی کی ’’فراخدلانہ‘‘ پیشکش ہو رہی ہے۔ یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے اور کیوں نہ آتے، پورے ڈیڑھ سال جن کو مذاکرات کیلئے بلاوے بھیجتے رہے، انہوں نے ہر سنی، ان سنی کر دی تو پھر دم سے چمٹ جانے کے سوا راستہ ہی کیا تھا۔ ابھی گول مول معافی کی بات ہے، پھر سیدھے سبھائو چوکور یا مستطیل معافی پر بھی آ ہی جائیں گے۔ جو کچھ راجہ صاحب نے فرمایا، تین روز پہلے جیل میں ملاقات کے دوران دراصل مرشد نے فرمایا تھا۔
لیکن کیا’’وہ‘‘ بھی آ جائیں گے۔ حد سے زیادہ باخبروں کی خبر یہ ہے کہ ادھر ’’مرشد‘‘ سے ’’باب توبہ‘‘ بند ہو چکا ہے اور وہ کہتے ہیں ، معافی مانگو یا نہ مانگو، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معافی اب نہیں ملے گی، گائے کی دم سے ہمارا کوئی تعلق واسطہ نہیں، دم سے چپکو یا سینگوں سے لپٹو، ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔
______
مرشداتی حلقوں کی ’’کلیرکٹ ‘‘ پیش گوئی کہ آئی ایم ایف اس بار مرشد کے بارے میں کوئی ’’مثبت نتیجہ‘‘ حاصل کئے بغیر قرضہ نہیں دے گا، حسب سابق غلط نکلی اور آئی ایم ایف نے ہموار طریقے سے سٹاف معاہدے پر دستخط کر دئیے، نہ صرف معاہدہ ہو گیا بلکہ آئی ایم ایف نے یہ سند بھی جاری کر دی کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہے، ٹھیک اور سیدھے راستے پر ہے، صورتحال اطمینان بخش ہے۔
اچھی بات ہے لیکن اس میں ایک بری بات بھی ہے۔ حکومت کو اب کوئی سیاسی چیلنج ہے نہ معاشی دقّت، راوی سمیت سبھی دریا چین ہی چین لکھ رہے ہیں تو نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کا اعتماد بڑھ گیا اور اعتماد بڑھ گیا تو اس نے عوام کو راضی کرنے کا خیال بھی دل سے نکال دیا۔ یعنی اب عوام کی پروا کرنے کی کوئی مجبوری رہی نہ ضرورت۔
چنانچہ مہنگائی کا سرکاری انڈکس اگرچہ نیچے ہی نیچے جا رہا ہے، حقیقی انڈکس اس کے برعکس اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ کوئی حکومت سے شکوہ کرے کہ مرے مرائے عوام کو اور مت مارو تو وہ جواب میں ہنس دیتی ہے۔ چینی مافیا سمیت سارے مافیاؤں کی موج لگی ہے۔ دوائیں آج کل ’’روزانہ اشیائے صرف‘‘ کی فہرست میں شامل ہیں۔ وہ زمانے گئے جب کوئی کبھی کبھار بیمار پڑتا تھا تو دوائی لینے کی نوبت آتی تھی، زمانے کا بدلا ایسا ہوا کہ ہر شخص بیمار ہے اور ہر بیماری مستقل ہے اور دوا ساز مافیا ہر ہفتے دوائی کی قیمت بڑھا دیتا ہے۔ پوچھنے والا کوئی نہیں، تھپکی دینے کیلئے حکومت موجود ہے۔
______
سلامتی کونسل میں پاکستانی مندوب گل قیصر سروانی نے بھارت کے موقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں، متنازعہ علاقہ ہے۔ اس کی تاریخی حقیقت تبدیل نہیں کی جا سکتی، بھارت کشمیری عوام کیخلاف ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے، کشمیریوں کو حق خودارادی دینا پڑے گا۔
یعنی حد ہی کر دی ، بھارت کی دلآزاری کے علاوہ اصل بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے پچھلے دور میں ہونے والے ’’ورلڈ کپ معاہدے‘‘ کی کھلم کھلّا خلاف ورزی کی گئی۔ بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خاں فوری اس معاملے کا نوٹس لیں، گل قیصر سروانی کو نوکری سے برطرف کریں اور پاکستان واپس بلا کر جیل میں ڈال دیں۔ حیرت ہے، آج تیسرا روز ہو گیا، کوئی کارروائی گل قیصر کے خلاف نہیں ہوئی۔ شاید کسی نے وزیر اعظم عمران خاں کو اطلاع ہی نہیں دی۔
ارے یاد آیا۔ عمران خاں اب وزیراعظم کہاں۔ وہ تو کب کے سابق اور پھر زنداں نشین ہو چکے __ جبھی تو…!
______
کراچی میں ڈمپر اور ٹینکر مافیاز کے ڈرائیور ہر روز لوگوں کی جان لیتے ہیں لیکن ملیر ھالٹ پر ہونے والے حادثے نے بہت توجہ حاصل کی۔ اس حادثے میں میاں بیوی اور جائے حادثہ پر پیدا ہونے والا نومولود تینوں چل بسے۔ کنٹونمنٹ کا ملازم عبدالقیوم اپنی بیوی کو موٹر سائیکل پر لے جا رہا تھا کہ اندھا دھند رفتار سے آنے والے واٹر ٹینکر نے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ مرحومین کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
کراچی مافیاز کیلئے بہارستان ہے۔ ڈکیت مافیا، موبائل فون سنیچر مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، ڈرگ مافیا سمیت درجنوں مافیاز رات دن اپنی ’’کاروباری سرگرمیاں‘‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہر میں قدم قدم پر قانون نافذ کرنے والوں کے ناکے ہیں اور لگتا ہے یہ ناکے دراصل ان مافیاز کی سہولت کاری کیلئے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو تین عشروں سے کراچی والوں سے ناراض ہے، اتنی ناراض کہ کوئی سوتیلی ماں بھی اتنا ناراض نہیں ہو سکتی۔ ریاست کی سہولت کاری کے ساتھ پیپلز پارٹی نے شہر کی میئر شپ بھی جماعت اسلامی والوں سے ہتھیا لی، میئر شپ حاصل کرنے کے باوجود ناراضگی اور غصہ کم نہیں ہوا۔
چنانچہ شہر میں مافیاز کا راج ہے، شہری سہولتیں کم ہوتے ہوتے اب ناپید ہونے کو آئیں لیکن پیپلز پارٹی کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا لوگ اب تو سرتال سے گاگا کر پوچھتے ہیں کہ سرکار:
یہ غصہ کیسے اترے گا
______
امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ میں ہے کہ چین 2030ء تک دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور بننے کیلئے کام کر رہا ہے۔
یعنی محض 5 سال بعد۔
بہت مشکل سا ٹاسک لگتا تھا۔ یعنی یہ کہ اب تک تو یہ ہدف حاصل کرنا مشکل لگتا تھا لیکن اب حالات سازگار ہونے لگے ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ آ گئے ہیں۔ انہوں نے ٹرم پوری کر لی تو چین اپنا ہدف مدّت مذکورہ میں بآسانی حاصل کر لے گا۔
ٹرمپ نے دنیا بھر کو امریکہ کا دشمن بنا لیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اپنے براعظم میں صرف ایک پڑوسی یعنی کیوبا کا دشمن تھا۔ اب کینیڈا اور میکسیکو سمیت ہر پڑوسی امریکہ کا دشمن ہے۔ ٹرمپ کا ہدف’’ امریکہ کا زوال ‘‘ ہے، یعنی چین کا فائدہ۔