دنیائے صحافت اگر ایک کارواں ہے تو اس کارواں میں کچھ ایسے قافلہ سالار بھی پیدا ہوتے ہیں جو صرف قلم تھامنے والے نہیں ہوتے، بلکہ وقت کی پیشانی پر صداقت و جرأت کے نقش کندہ کرتے ہیں۔ مجید نظامی اْنہی درخشندہ ستاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے اردو صحافت کو وقار، غیرت اور اصول پرستی کا وہ درس دیا جو رہتی دنیا تک مشعلِ راہ رہے گا۔جب قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کر بیٹھتی ہیں تو تاریخ ان پر خندہ زن ہوتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ اقوام جو اپنے معماروں، نگہبانوں اور فکری رہنمائوں کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ اْن کی زندگیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ مجید نظامی ان چند عظیم شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے پاکستان کے نظریاتی وجود، قومی خودی، اور آزادی صحافت کے علم کو ایک عہد سے دوسرے عہد تک سلامت پہنچایا۔ وہ نہ صرف ایک مدیر تھے، بلکہ ایک عہد ساز شخصیت، نظریہ پاکستان کے نگہبان، اور قومی وقار کے علمبردار بھی تھے۔مجید نظامی کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک باوقار، پْرعزم اور غیرمتزلزل شخصیت کا تصور ابھرتا ہے، جو کسی طوفان، کسی لالچ، کسی خوف کے سامنے نہ جھکے، نہ ڈرے، نہ زبان بدلی، نہ موقف۔ وہ ایک صحافی نہ تھے بلکہ ایک نظریاتی سپاہی تھے، ایک ایسا سپاہی جو قلم سے جہاد کرتا رہا، لفظوں سے معرکے مارتا رہا اور نظریہ پاکستان کی پاسبانی کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ مجید نظامی 3 اپریل 1928ء کو سانگلہ ہل (ضلع شیخوپورہ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی، بعدازاں لاہور میں اسلامیہ کالج اور پنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اْنہوں نے برطانیہ کی مشہور جامعہ لندن سے بھی تعلیم حاصل کی اور صحافت کے میدان میں عملی تربیت لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر تقسیم کے دوراہے پر کھڑا تھا، اور نوجوان مجید نظامی کے دل میں پاکستان کے لیے ایک جذبہ، ایک خواب اور ایک عزم انگڑائیاں لے رہا تھا۔
نوائے وقت صرف ایک اخبار نہیں، ایک تحریک ہے۔ اس کی بنیاد ان کے بڑے بھائی حمید نظامی نے 23 مارچ 1940ء کو رکھی، جو تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن اور بانیانِ نوائے وقت میں شامل تھے۔ حمید نظامی کی وفات کے بعد، مجید نظامی نے 1962ء میں نوائے وقت کی باگ ڈور سنبھالی اور پھر نصف صدی سے زائد عرصے تک اس کشتی کے ملاح بنے رہے۔
نوائے وقت کو انہوں نے صرف ایک اشاعتی ادارہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے نظریاتی جنگ کا قلعہ بنایا۔ جہاں مغرب زدگی، لبرل ازم اور قومی نظریے سے انحراف کے خلاف صف آرا ہو کر وہ ہمیشہ بلند آواز میں بولے۔ ان کے قلم میں وہ حرارت تھی جو قومی غیرت جگاتی ہے، اور ان کی زبان میں وہ صداقت تھی جو ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ مجید نظامی کو بجا طور پر نظریہ پاکستان کا پاسبان کہا جاتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان محض ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے، ایک خواب ہے جو علامہ اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم نے تعبیر کیا۔
اْنہوں نے اپنے ادارے کے ذریعے پاکستان میں نوجوان نسل کو نظریاتی تربیت فراہم کی۔ نظریاتی کونسلز، تقریری مقابلے اور تحریری مسابقے اْن کے دورِ ادارت کی خاص پہچان بن گئے۔ وہ ہر فورم پر کہتے تھے، ’’اگر ہم نے نظریہ پاکستان کو فراموش کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔‘‘ انہوں نے ایٹمی دھماکوں کے وقت وزیر اعظم نواز شریف پر سخت دبائو ڈالا کہ وہ امریکہ کی امداد کو ٹھکرا کر دھماکے کریں، اور پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنائیں۔ اْن کا مشہور جملہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے: ’’اگر آپ نے دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی!‘‘
آج کے دور میں جب صحافت کاروبار بن چکی ہے، اور بیشتر میڈیا ادارے اشتہارات، ریٹنگز اور مفادات کے اسیر ہو چکے ہیں، مجید نظامی ایک ایسی مثال تھے جنہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ وہ کہتے تھے: ’’ہم اشتہار پر نہیں بِکتے۔‘‘ ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار پرویز مشرف نے اْن سے پوچھا: ’’نظامی صاحب! میرے لیے کوئی نصیحت؟‘‘ مجید نظامی نے کہا: ’’ہاں! وردی اْتار دو!‘‘ یہ الفاظ تھے ایک بے خوف صحافی کے جو نہ مراعات کا طلبگار تھا نہ اقتدار کا خوشامدی۔اْن کا مشہور جملہ ’’میں نظریہ پاکستان کا محافظ ہوں‘‘ آج بھی صحافت کے طالب علموں کو اصولی موقف کی تلقین کرتا ہے۔
انہوں نے ہر حکومت کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روایت کو زندہ رکھا۔ وہ ہمیشہ عوام کے ترجمان اور قومی مفادات کے محافظ رہے۔ اْن کے ادارے نے ہمیشہ ملکی سالمیت، افواج پاکستان، اور اسلامی اقدار کے تحفظ کو اپنا شعار بنایا۔ مجید نظامی نے صرف صحافت تک محدود رہنے کو کافی نہ جانا، بلکہ نظریاتی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی کئی ادارے قائم کیے۔ اْن کی نگرانی میں ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ قائم ہوا۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ زندہ قومیں اپنی شناخت، تاریخ اور اقدار سے جْڑی رہتی ہیں۔
اگرچہ وہ نظریاتی تھے، لیکن اپنی ٹیم کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آتے۔ ادارہ نوائے وقت میں سینکڑوں صحافی اْن سے تربیت حاصل کرکے پاکستان بھر میں پھیلے۔ وہ میرٹ پر یقین رکھتے تھے۔ سفارشی کلچر کو سخت ناپسند کرتے۔ اگر کسی رپورٹر کی خبر کمزور ہوتی، تو اْس پر سختی کرتے لیکن ساتھ ہی بہتری کے لیے رہنمائی بھی کرتے۔نوائے وقت کے ادارتی صفحات اْن کی فکری بلندی کے آئینہ دار ہوتے۔ اْن کی تحریر میں ایک ایسا جادو ہوتا جو دلوں کو جھنجھوڑ دیتا، اور پڑھنے والا جھوم اٹھتا کہ یہ ہے اصل صحافت۔ اسلامی اقدار اور روایات کا تحفظ اْن کی صحافت کا اہم ستون تھا۔ وہ مغربی تہذیب کی یلغار کے خلاف ہمیشہ مورچہ بند رہے۔ انگریزی میڈیا کی بعض پالیسیوں پر وہ کْھل کر تنقید کرتے اور یہ باور کراتے کہ صحافت کا اولین فرض، معاشرے کی اصلاح اور قومی خودی کا تحفظ ہے، نہ کہ اشتہاری مفاد یا مغربی ایجنڈے کی تکمیل۔
26 جولائی 2014ء کو یہ عہد ساز شخصیت ہم سے رخصت ہوئی، مگر اْن کا نظریہ، اْن کی جدوجہد، اور اْنکی تحریریں آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی وفات صرف ایک فرد کی موت نہ تھی بلکہ ایک پوری نظریاتی تحریک کی قیادت کا خلا تھا۔ وہ ایک ایسا چراغ تھے جس کی روشنی اب بھی نوائے وقت کے صفحات پر، نوائے وقت کے مجید نظامی ہال میں اور پاکستان کی فکری فضائوں میں جھلملاتی نظر آتی ہے۔ مجید نظامی جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ ان کا وجود ہمارے قومی شعور کے ماتھے کا جھومر ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی منزل کو پانا ہے اور پاکستان کو حقیقتاً ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے تو ہمیں پھر سے اسی جذبے، اسی صداقت، اور اسی نظریاتی وابستگی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا جس کا نمونہ ہمیں مجید نظامی کی صورت میں ملا۔ اْن کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ صحافت صرف پیشہ نہیں، ایک جہاد ہے۔ قلم صرف الفاظ کا ہتھیار نہیں، نظریات کا محافظ ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نظریے کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر ہم مجید نظامی کو سچ میں خراجِ عقیدت پیش کرناچاہتے ہیں تو ہمیں اْن کے افکار کو اپنانا ہوگا، اْن کے مشن کو جاری رکھنا ہوگا، اور اْس عزم کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا جس کے تحت وہ عمر بھر نظریہ پاکستان کا پرچم بلند کرتے رہے۔
آج جب صحافت بکھرتی جا رہی ہے، جب ضمیر بکتے جا رہے ہیں، جب سچ پر جھوٹ کی گرد جمتی جا رہی ہے، ایسے میں مجید نظامی کا کردار ایک مینارہ نور کی مانند ہے۔ ان کا راستہ آسان نہ تھا، لیکن بااصول ضرور تھا۔ آج کے نوآموز صحافیوں کو اگر کسی ایک شخصیت کو اپنا رول ماڈل بنانا ہو، تو وہ بلا جھجک مجید نظامی کا نام لیں۔یہ سچ ہے کہ شخصیات مٹی میں دفن ہو جاتی ہیں، لیکن اْن کا کردار تاریخ کے اوراق میں امر ہو جاتا ہے۔ مجید نظامی اْس امرِ صحافت کا نام ہے جس کی گونج صدیوں تک سنائی دے گی۔ مجید نظامی محض مدیر نہ تھے، وہ قلم کے شہسوار، نظریہ پاکستان کے امین، اور صحافت کی غیرت کا مینار تھے۔ اْن کی زندگی ایک عہدِ صداقت تھی، جس میں سچائی کا سودا کبھی نہیں ہوا۔ وہ نہ جھکے، نہ بکے، نہ رْکے بلکہ ہر طوفان میں چراغ کی مانند روشن رہے۔ ان کی صحافت فقط خبروں کی ترسیل نہ تھی، بلکہ قومی شعور کی بیداری، خودی کا پرچم، اور حق گوئی کا پرجوش اعلان تھی۔ وہ گزر گئے، مگر ان کی روشنی آج بھی سچ کے ہر متلاشی کی رہنما ہے۔
آج بھی یہ عظیم مشن اْسی جوش و جذبے، خلوصِ نیت اور اصولی وابستگی کے ساتھ محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی زیرِ قیادت جاری و ساری ہے، جو نوائے وقت کے نظریاتی صحافتی سفر کو ہر قسم کے سمجھوتے سے بالا رکھتے ہوئے اس کے اصل تشخص کی ضمانت بن چکی ہیں۔
دْعا ہے کہ ربِ کریم اس عظیم ادارے کو تعمیرِ ملت اور پاکستان کی نظریاتی و صحافتی خودمختاری کے مقدس فریضے میں ہمیشہ سرخرو اور ثابت قدم رکھے۔ آمین۔