"عید کا پیام"

سید محمد علی 
syedhamdani012@gmail.com 
یومِ عید الفطر مسلمانوں کے لیے خوشی، محبت اور اجتماعیت کا ایک عظیم دن ہے۔ یہ دن رمضان المبارک کے بعد آتا ہے اور مسلمانوں کے لیے اللہ کا انعام سمجھا جاتا ہے۔ عید الفطر کے ساتھ وابستہ روایات اور رواجوں میں بعض اوقات ایسی معاشی ناہمواریاں دیکھنے میں آتی ہیں جو سماجی تقسیم کو مزید گہرا کر دیتی ہیں۔ خاص طور پر عید کے موقع پر تحائف دینے کی روایت ایک ایسی مثال ہے جو بعض اوقات مالی دباؤ، سماجی تفاوت اور ذہنی اضطراب کو جنم دیتی ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ عید الفطر کے موقع پر تحفے تحائف کی روایت کس طرح اقتصادی ناہمواریوں کو جنم دیتی ہے اور اس سے جڑے انسانی حقوق کس طرح متاثر ہوتے ہیں۔ عید الفطر مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد یہ دن خوشی اور تشکر کے جذبات سے لبریز ہوتا ہے۔ عید الفطر کے دن مسلمانوں پر صدقہ فطر ادا کرنا فرض کیا گیا ہے تاکہ غریب اور کمزور طبقات بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ صدقہ فطر کا مقصد یہی ہے کہ کوئی بھی فرد عید کے دن بھوکا نہ رہے اور سب کو اپنی استطاعت کے مطابق خوشی منانے کا موقع میسر آئے۔ تاہم، عید الفطر کے دن خصوصی لباس پہننا، تحفے تحائف دینا، دعوتوں کا اہتمام کرنا اور مہمان نوازی کرنا عام روایات میں شامل ہیں۔ ان روایات کا بنیادی مقصد محبت اور خیر سگالی کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر بدلتے ہوئے معاشرتی رجحانات اور صارفیت (consumerism) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے عید الفطر کے روایتی تصورات کو کسی حد تک متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر عید الفطر کے موقع پر تحفے تحائف دینے کا رجحان ایک سماجی دباؤ کی صورت اختیار کر گیا ہے جو معاشی تفاوت کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ معاشی عدم مساوات کے اثرات سب سے زیادہ کم آمدنی والے طبقے پر پڑتے ہیں۔ عید الفطر کے موقع پر زیادہ خرچ کرنے کا دباؤ بہت سے لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کریں تاکہ وہ معاشرتی توقعات پر پورا اتر سکیں۔ یہ دباؤ خاص طور پر ان خاندانوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے جن کی آمدنی محدود ہوتی ہے یا جو پہلے ہی مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ عید کے تحائف میں ملبوسات، جیولری، الیکٹرانکس، اور دیگر قیمتی اشیاء￿  شامل ہو سکتی ہیں۔ جب سماجی توقعات میں ان مہنگے تحائف کا رجحان بڑھنے لگتا ہے تو وہ افراد جو ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے، خود کو معاشرتی دباؤ میں محسوس کرتے ہیں۔ یہ دباؤ بعض اوقات قرض لینے، بچت کو ختم کرنے، یا ضروریاتِ زندگی پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے عید الفطر کے اخراجات اکثر تعلیم، صحت، اور دیگر بنیادی ضروریات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ طبقہ جو پہلے ہی معاشی طور پر پسماندہ ہوتا ہے، مزید مشکلات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس طرح عید الفطر کی خوشیاں جن کا مقصد سب کو شامل کرنا ہوتا ہے، بعض افراد کے لیے پریشانی اور اضطراب کا سبب بن جاتی ہیں۔ تحفے دینے کا عمل بعض اوقات جذباتی دباؤ کا بھی سبب بنتا ہے۔ لوگ اکثر اپنی محبت اور تعلقات کے اظہار کے لیے مہنگے تحائف دینے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس رجحان سے کم وسائل رکھنے والے افراد خود کو کمتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر وہ مہنگے تحائف نہ دے سکیں تو ان کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ رویہ خاص طور پر نوجوانوں میں عام ہوتا جا رہا ہے، جو سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے پرتعیش طرزِ زندگی کو دیکھ کر احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عید الفطر کا ایک اور اہم پہلو بچوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس موقع پر بچوں کو عیدی دینا ایک خوبصورت روایت ہے جس کا مقصد ان میں خوشی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں عیدی کی رقم میں اضافے کا رجحان عام ہو گیا ہے، جس سے بعض والدین پر مالی دباؤ بڑھنے لگا ہے۔ والدین بعض اوقات اپنی استطاعت سے زیادہ رقم بچوں کو عیدی کے طور پر دیتے ہیں تاکہ وہ سماجی توقعات پر پورا اتر سکیں۔ یہ صورتحال کم وسائل والے خاندانوں کے لیے مزید پریشانی پیدا کرتی ہے۔ عید الفطر کے موقع پر معاشی تفاوت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عید کی اصل روح کو سمجھا جائے۔ صدقہ فطر جیسے احکامات کا مقصد یہی ہے کہ کوئی بھی فرد معاشرتی دباؤ یا احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو۔ معاشرے میں ان روایات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو سب کو اپنی استطاعت کے مطابق عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کا موقع دیں۔ لوگوں کو یہ شعور دینا بھی ضروری ہے کہ تحفے تحائف دینے کا مقصد محبت اور تعلقات کو مضبوط کرنا ہوتا ہے، نہ کہ مالی حیثیت کا مظاہرہ کرنا۔ عید الفطر کو حقیقی معنوں میں خوشی کا موقع بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کریں اور ایسے افراد کا خاص خیال رکھیں جو معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔ حقیقی خوشی تب ہی ممکن ہے جب عید کے دن ہر فرد کو عزت، سکون اور خوشی کا احساس ہو، چاہے اس کے مالی وسائل کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوں۔

ای پیپر دی نیشن