سید مجتبی رضوان
.. پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025، 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہوگاپی ایم آئی ایف 25 میں عالمی اور مقامی سرمایہ کار شرکت کریں گیپاکستان میں معدنی وسائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے ’’پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم کا انعقاد 8 اور 9 اپریل کو جناح کنونشن سینٹر، اسلام آباد میں ہو گا۔ یہ فورم ایس ا?ئی ایف سی، وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویڑن)، اوجی ڈی سی ایل اور دیگر شراکت داروں کے اشتراک سے منعقد کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد ملکی معدنی وسائل میں سرمایہ کاری کے مواقع اجاگر کرنا ہے۔ پی ایم آئی ایف 25 میں اوجی ڈی سی ایل بطورارگنائزر جبکہ بیرک، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ ، ریکوڈک مائننگ کمپنی ، فرنٹیئر ورکس ا?رگنائزیشن ، ماڑی انرجیزاور دیگر بڑی کمپنیاں بطور شراکت دار شرکت کریں گی۔
یاد رہے کہ یہ فورم عالمی اور مقامی سرمایہ کاروں، حکومتی نمائندوں، کاروباری اداروں، مالیاتی ماہرین اور پالیسی سازوں کو ایک جگہ اکٹھا کرے گا تاکہ پاکستان کے معدنی وسائل میں سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دیا جا سکے۔ پی ایم آئی ایف 25 میں حکومت پاکستان ’’نیشنل منرلز ہارمونائزیشن فریم ورک 2025‘‘ کا باضابطہ اعلان کرے گی، جو سرمایہ کاری کو مزید ا?سان اور منافع بخش بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ واضع رہے پاکستان معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے، جہاں تانبہ، سونا، لیتھیم، اور نایاب معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ یہ معدنیات توانائی، ٹیکنالوجی، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے نہایت اہم ہیں، جس سے پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں اہم مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ فورم پاکستان کے معدنی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے، جدید ٹیکنالوجی کے فروغ، اور پائیدار کان کنی کے طریقوں کو اپنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی معدنیات کی طلب کے پیش نظر، ’پی ایم آئی ایف 25‘پاکستان کو عالمی منرل مارکیٹ میں نمایاں مقام حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گا.وزیرخارجہ اسحٰق ڈار کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان مائننگ انویسٹمنٹ فورم کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ ترجمان دفترخارجہ شفقت علی خان کے مطابق وزیرخارجہ و نائب و زیراعظم اسحٰق ڈار کے زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد میں 8 تا 9 اپریل منعقد ہونے والے پاکستان مائننگ انویسٹمنٹ فورم کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزیر پٹرولیم، وزارت داخلہ کے اسپیشل سیکرہٹری، چیئرمین سی ڈی اے سمیت اعلی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران مائننگ فورم کے حوالے سے بریفنگ دی گئی جبکہ نائب وزیراعظم نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ فورم پاکستان کے مائننگ سیکٹر کے لیے اہم ترین ثابت ہوگا۔ ترجمان کے مطابق اسحٰق ڈار نے فورم کی کامیابی کے لیے وزارت خارجہ کے حکام کو وزارت پٹرولیم سے مکمل تعاون کی ہدایت بھی کی۔ یہ یاد رہے کہ پاکستان قدرتی وسائل کے ذخائر سے خود کفیل ہے یہ اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملک میں کوئلہ، تانبہ، سونا، لوہا، کرومائیٹ، اور قیمتی پتھروں سمیت معدنی وسائل کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو کان کنی کے شعبے کی ترقی اور قومی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔اس بے پناہ صلاحیت کے باوجود، معدنی شعبہ فی الحال ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں صرف 3.2 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جبکہ برا?مدات عالمی سطح پر صرف 0.1 فیصد ہیں۔ تاہم ان معدنیات کی بڑھتی ہوئی تلاش، غیر ملکی سرمایہ کاری، اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے ساتھ، پاکستان کی کان کنی کی صنعت نمایاں ترقی کے لیے تیار ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً 600,000 مربع کلومیٹر پر محیط ہیںاورملک میں 92 معدنیات کی نشاندہی ہو چکی ہے، جن میں سے 52 تجارتی پیمانے پر نکالی جا سکتی ہیں، اور سالانہ اندازاً 68.52 ملین میٹرک ٹن معدنیات حاصل کی جارہی ہیں۔ یہ شعبہ 5,000 سے زائد فعال کانوں ، 50,000 چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو سہولت اور 300,000 افراد کو روزگاربھی مہیا کرتا ہے۔اس وقت پاکستان کے قابل ذکر معدنی ذخائر میںدنیا کے دوسرے بڑے نمک کے ذخائر، پانچویں بڑے تانبا اور سونے کے ذخائر، اور نمایاں کوئلے کے ذخائر شامل ہیں۔ مزید برا?ں، باکسائٹ، جپسم، اور قیمتی پتھروں جیسے یاقوت، پکھراج، اور زمرد کے وافر ذخائر موجود ہیں، جو برا?مدات کے لحاظ سے نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر معدنی وسائل اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چین، اٹلی، ترکی، اسپین، اور برازیل سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک نے اپنے معدنی وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرکے صنعتی ترقی، روزگار میں اضافے، اور فی کس ا?مدنی میں بہتری حاصل کی ہے۔واضع رہے پاکستان کا معدنی شعبہ بھی اسی طرح ترقی کی صلاحیت رکھتا ہے۔بہتر حکمت عملی کے تحت منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے ذریعے ملک تجارت کو بہتر بنا سکتا ہے، روزگار کے مواقع پیدا کر سکتا ہے، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے، جو بالا?خر اقتصادی ترقی کو تیز کرے گا اوربڑھتی ہوئی معدنی تلاش اور ویلیو ایڈیشن (قدر میں اضافہ) سے ا?مدنی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بہت سے ممالک خام معدنیات درا?مد کرکے انہیں بہتر بنا کر اعلیٰ قیمتی مصنوعات کے طور پر برا?مد کرتے ہیں۔ پاکستان بھی اس ماڈل کو اپناتے ہوئے معدنی پراسیسنگ اور ریفائننگ انڈسٹریز قائم کر سکتا ہے، جس سے زیادہ مالیت کی برا?مدات ممکن ہوں گی اور خام مال کی درا?مد پر انحصار کم ہو جائے گا۔اس وقت پاکستان کا معدنی شعبہ بڑھتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، اور عالمی کمپنیاں ملک کے غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک کاپر اور گولڈ پر وجیکٹ دنیا کا سب سے بڑا غیر دریافت شدہ تانبے کا ذخیرہ ہے اور پاکستان کی کان کنی کے شعبہ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ اس منصوبے کو کینیڈا کی کمپنی بیرک نے دوبارہ فعال کیا ہے جوکہ اس منصوبے میں 50 فیصد کا مالک ہے۔ ریکوڈک پروجیکٹ کی کامیابی سے 2028 تک تانبے اور سونے کی پیداوار شروع ہو جائے گی، جس میں ابتدائی طور پر 5.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ بیرک کے سی ای او مارک برسٹو کے مطابق یہ ذخیرہ اگلے 37 سالوں میں تقریباً 74 بلین ڈالر کا مفت کیش فلو پیدا کرے گا۔یہ کان سالانہ 2.8 بلین ڈالر کی برا?مدات پیدا کرے گی، ہزاروں ملازمتوں کے مواقع فراہم کرے گی، اور مقامی معیشت کو تبدیل کرے گی۔ یہ منصوبہ تانبے کی پیداوار کو 400,000 ٹن اور سونے کی پیداوار کو 500,000 اونس سالانہ تک بڑھا دے گا، جس میں اضافی 3.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہوگی۔ بین الحکومتی معاہدے کے تحت، وفاقی کابینہ نے ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب کو 15 فیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ معاہدہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کا معدنی شعبہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم مرکز بن رہا ہے۔ سعودی عرب کی مائننگ کمپنی، منارہ منرلز، اس منصوبے میں 15 فیصد حصص حاصل کرے گی، جس کے لیے ممکنہ طور پر 1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی معدنی صنعت کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) معدنی وسائل کی نقل و حمل اور برا?مدی لاجسٹکس کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ گوادر پورٹ اور پورٹ قاسم معدنی برا?مدات کو بڑھانے کے لیے تیار ہیں، جبکہ بہتر سڑک اور ریل نیٹ ورک کان کنی کے علاقوں اور صنعتی مراکز کے درمیان بہتر رابطے کو یقینی بنائے گا۔ریکوڈک کان کے لیے لاجسٹکس کا انتظام پاکستان ریلوے کے تعاون سے قائم کیے جانے والے ریلوے ٹریک کے ذریعے کیا جائے گا۔ اس ریلوے ٹریک کے ذریعے کراچی سے کان کے لیے ضروری سامان پہنچایا جائے گا اور تانبے اور سونے کے مرکب کو کراچی سے برا?مد کیا جائے گا۔ ریکوڈک کے علاوہ، بلوچستان میں 40 سے زائد معدنی وسائل موجود ہیں، جن میں تیل، گیس، یورینیم، اور کوئلہ شامل ہیں، جو پاکستان کی توانائی اور صنعتی ضروریات کو کئی دہائیوں تک پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزید برا?ں، ریفائنریوں کے قیام پر بھی کام جاری ہے، جو پاکستان کی خام مال کی برا?مد پر انحصار کم کرے گا۔حکومت وقت معدنی شعبے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’نیشنل منرلز ہارمونائزیشن فریم ورک 2025‘‘ کو حتمی شکل دے رہی ہے، جو ایک جامع پالیسی ہے جس کا مقصد سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور قومی و صوبائی سطح پر ضوابط کو منظم کرنا ہے۔ یہ فریم ورک مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مراعات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کان کنی کے ضوابط کو ا?سا ن بنائے گا اور عوامی و نجی شراکت داری کو فروغ د ے گا۔اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت’ ’پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم (PMIF25) 2025‘‘ ہے، جو 8اور9 اپریل کو اسلام ا?باد میں منعقد ہوگا۔ اس ایونٹ میں عالمی وزراء ، بڑی کارپوریشنز، سرمایہ کار، پالیسی ساز، اور صنعت کے ماہرین شرکت کریں گے تاکہ معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع، تکنیکی ترقی، اور پالیسی فریم ورک پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ پاکستان کے معدنی وسائل میں بے پناہ معاشی صلاحیت موجود ہے۔ حکمت عملی پر مبنی سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے میں بہتری، اور قدر میں اضافہ کے ذریعے کان کنی کا شعبہ قومی اقتصادی ترقی کا ایک اہم محرک بن سکتا ہے۔