قاعد اعظم میڈیکل کالج میں میرے تیزی سے بچھڑتے ہوے دوسرے بیچ کے ساتھیوں کا کچھ ذکر

آج مورخہ اکیس فروری دوہزار پچیس کو پچپن سالا سالگرہ پر بیچ تین کے علی حیدر کی وفات نے یادوں کے دریچے وا کر دیے ۔یاد رہے اس سے پہلے ہمارے دوسرے بیچ میں اطلاعات کے مطابق ہمارے پندرہ بیچ فیلو جن میں بلال شاہ ، اسلم خان عرف ہلاکو، فضل الہی، مہدی وحید، مرزا نذیر، شفیق بٹ اشرف قمر ، الطاف بھائی، شکیل چھوڑی، اسلم نیازی ، طارق صاحب، غلام مصطفے، یوسف مجاز ، بشیر جو کیمبل پور سے تعلق رکھتے تھے ایکسیڈنٹ کا شکار ہوے تھے وہ تو بہت پہلے ہی ہمیں داغ مفارقت دے چکے ہیں۔ مجھے یاد پڑھتا ہے کہ اسلم کے نام کے ساتھ ہلاکو مذاحیہ یا ازراہ تفنن کہا جاتا تھا، اس کی وفات سے پہلے عید قرباں پر اس سے بات ہوئی تو اس کی حس ظرافت بڑھک اٹھی اور نہ جانے اس نے کیا کیا مجھے کہہ دیا ۔ ہمارے یہ بیچ فیلوفوج میں بھی نوکری کر چکے تھے۔ اور وفات کے وقت ایل ایم ڈی سی کالج لاہور میں بےہوشی کے سپیشلسٹ کی حیثئت سے کام کر رہے تھے۔ میری ان سے آخری ملاقات یو ایچ ایس میں جنوری دوہزار بیس میں ملاقات ہو ئی تھی اور فوٹوز بھی ہیں جس میں شائد پروفیسر نواب صاحب کی بھی آخری شرکت کی تھی ۔دوسرے سا تھی شکیل چھوڑی ہمارے دوسرے بیچ کے سینیر،،ایم او،، تھے ملتان روڈ پر چک تیرہ سے تھے ، مزاحیہ گفتگو میں گپ کا تڑکا لگانا نہ بھولتے اور ایک ہمدرد انسان تھے ۔ دوسرے بیچ سے ہی شفیق بٹ جو کہ سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے زیا دہ تراپنے کام سے کام رکھتے ۔ میری ان سے زیادہ نیاز مندی نہ تھی وہ بھی اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ مہدی وحید میرے دوسرے بیچ کے میرے کلاس فیلوہی نہ تھے بلکہ میرے روم میٹ بھی تھے ۔ رانا زاہد آج کل آئی سرجن کی حیثئت سے ملتان میں کام کر رہے ہیں وہ ہمارے تیسرے روم میٹ ہوا کرتے تھے مہدی وخید گجرات سے تھے ۔ فوج میں میجر کی حیثئیت سے کام کرتے رہے اور میرے کلینک پر بھی مجھے اکثر ملنے آیا کرتے ۔ دوستوں کے دوست ہمدرد انسان تھے۔ ان کہ لئے یہ ضرور کورں گا کہ جانا تھا ہم سے دور ٹھکانے بنا لئے اور یا دوں کا امبوہ کثیر چھوڑ گئے۔اس کے علاوہ دوسرے بیچ سے تبلیغی جماعت کے عبدالہ صاحب چند سال پہلے اس دیار فانی سے کوچ کر چکے تھے ، انتہائی با کردار ، ہمدرد شخص تھے تبلیغی جماعت سے انکا تحلق تھا اور ہمیں سہ روزوں پر لے جانے کی دعوت دیا کرتے۔ جب بھی کبھی مشکل پیش آتی ، ہم ان کے پاس فری مشوروں کے لئے ان کے پاس پہنچ جایا کرتے اور وہ بھی کمال تحمل سے ہماری مسائل کا حل بتاتے ۔ کمال شخص تھے بھئی ۔ مرزا نذیر میرے ا نتہائی مخلص دوست ، روم میٹ اور میری طرح گوجرانوالہ کے قر یبی گاوں وزیرآباد سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن وہ بہت جلد آج سے کم از کم دس سال قبل دوسری دنیا سدھار گئے تھے ۔ وہ میو ہسپتال میں ٹی بی کے شعبہ میں کام کرتے رہے ۔ ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہوں جسے۔ میرے انتہائی قابل بیچ فیلو اشرف قمر صاحب بھی تھے جو کہ انتہائی پڑھاکو شمار ہوتے تھے اور کوئی کسی قسم کی ایکسٹرا کریکولر ایکٹوٹی میں کم ہی حصہ لئتے تھے وہ بھی ہمدرد ، انسان تھے وہ آرمی میں بھی میرے ہی سبجیکٹ پیتھالوجی کے پوسٹ گریجوئیٹ تھے ۔ ابھی پچھلے دنوں ان سے بات ہوئی تھی جب وہ پشاور کے کسی میڈیکل کالج میں کام کر رہے تھے کہ ا چانک پتہ چلا کہ وہ بھی رخصت ہو چکے ہیں۔ فضل الہی ہمارے بیچ کے انتہائی محنتی ، قابل ذہین کلاس میٹ تھے انہوں نے ایر فورس میں کام کیا تھا اور بعد ازاں پنڈی میں سرجن کی حیثئیت سے ایک کامیاب سرجن تھے۔ ان کی وفات اچانک تھی۔ وہ پروفیشنل آدمی تھے اوراپنے کام سے کام رکھنے ہولے ڈاکڑ تھے۔ دوسرے ہی بیچ کے بلال شاہ کرونا سے انتقال کر گئے ۔ وہ حلیم طبع، انسان دوست قابل اعتماد ساتھی تھے انہوں نے میرے ساتھ مل کر سیاست میں اپنے نئے گروپ کو آگے لائے۔ انہوں نے زیمبابوے میں ڈاکڑ کی حیثئیت سے کام کیا اور میرا خیال ہے وہیں وفات پائی۔ ایسا شفیق دوست شائد کبھی کسی کو ملے جیسا وہ مرد قلندر تھا۔ خدا رحمت کنند ۔ حاصل پور چشتئیاں سے ہمارے دوسرے بیچ سے غلام مصطفے بھی دیار فانی میں کو چ کر چلے ہیں۔وہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے اور بی وی ایچ میں کارڈییالوجی میں سینئر رجسٹرار رہے اور کارڈیالوجی ڈی پارٹمنٹ کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ہمارے دوسرے بیچ کے اسلم نیازی جو بورے والہ سے تھے وہ بھی اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے الطاف بھائی جو کہ ہمارے دوسرے بیچ کے تھے اور ایک وقت میں ہمارے ہوسٹل میں ساتھ والے کمرے میںرہا کرتے ، انتہائی شریف انفس نرم آواز میں بات کرنے والے ہمارے ساتھی تھے ۔ ایم فل فارماکالوجی کر کے فیصل آباد میڈیکل کالج میںاسسٹنٹ پروفیسر تھے ۔ وہیں بیماری سے وفات پاگئے ا نوارالسلام ان کے روم میٹ ہوا کر تے ۔اسلم نیازی بھی ہمارے دوسرے بیچ کے تھے ان کا بورے والا سے تعلق تھا ۔ صوم و صلواط کے پابندتھے۔ ایک اور بیچ فیلو جناب طارق صاحب تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ سنا تھا کہ کچھ دیر کے لئے تبیغی جماعت چھوڑ بھی دی بعد ازاں پھر تبلیعی جماعت کی طرف رغبت ہو گئی۔ ا سلا م میڈیکل کالج، آزاد کشمیر میں میں بھی فزیالوجی کے استاد رہے۔ قارئین گولڈن جوبلی کے موقع پر اعجاز شاہ صاحب جو ہمارے دوسرے بیچ کے کلاس فیلوتھے ان سے ملاقات ہوئی وہ اسی کالج میں بعد ازاںپرنسپل تعینات رہے۔ موجودہ خاتون پرنسپل صاحبہ جو کہ اسی کالج اور اسی شہر کے فارغ تحصیل ہیں اپنے ادارے کے لئے گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ گولڈن جوبلی کے موقع پر اپنے پیرا میڈیکل سکول سے آغاز کرنے والے اپنے اس کالج کو ایک وسیع روپ میں دیکھ کر بہت اچھالگا۔لیکن جب مہدی وحید کی وفاداری اور پرخلوص طبیعت۔ الطاف کی نزاکت سے بھری گفتگو،شکیل چھوڑی کا سنجیدہ انداز میں مذاحیہ لمبی گفتگو چھوڑنا، بلال شاہ کی پرخلوص اور حلیم طبیعت،اسلم صاحب کی پیار بھری بظاہر جلالی گفتگو، عبدلہ صاحب کی پرخلوص ہمدردانہ پند و نصائح، مرزا نذیر کا بے لوث لیکن کبھی کبھی غیر مطمعن سا نظر آنا، جناب اشرف قمر کی ہر وقت پڑھائی میں کچھ پوزیشن کی کو شش کرتے رہنا اور پھر اس میںکامیاب بھی ہونا، طارق صاحب اور غلام مصطفے کی ہمدردانہ مختصر تبلیغی گفتگویں، یوسف مجاز کی بذلہ سنجی اور مزاح بھری جگت بازی، تمام کے تمام اپنی ذات میں انجمن، جب یہ باتیں یاد آتی ہیں توکلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ آپ یقین کریں ان ساتھوں کے ساتھ غم اور خوشی کی گھڑیاں ہی آج ہمارا سرمایہ رہ گئی ہیں۔ ہوسٹل کامن روم میں ایک گھر سا بھر پور پر رونق ماحول ،ہماری تمام دوستوں سے گپ شپ کلاس روم میں ہماری دم بخود خاموشی اور لگن، سپورٹس کے میدان میں ہماری سرگرمیاں، تقریری مقابلوں میں میری اور دوستوں کی بھرپور شرکت ، سیاسی سرگرمیاں جب یاد آتی ہیں تو کبھی دوستوں کے درمیان اختلاف رائے ، اور کبھی اتفاق ہوا کرتا ، آج یہ اختلاف اور اتفاق کا حسیں امتزاج ہمیں رلاتا بھی ہے اور کبھی ہنساتا بھی ہے۔ آپ یقین کریں کہ جب میں گولڈن جوبلی کے موقع پر اپنی مادرعلمی پہنچا ، تو ان دوستوں کی شدید کمی ہوئی ۔ ایسا لگا جیسے میری نظریں اپنے اسی زمانے کو یاد کر رہی ہیں۔ ایک دنیاے حیرت کا سمندر تھا ، ایک نئی دنیا آباد تھی جن میں سے کوئی مجھے نہیں جانتا تک نہ تھا کہ اب لاوں کہاں سے ایسا کہ تجھ سا کہوںجسے، یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے ، اور آج ایک بلکل نئے لوگ، بعض اوقات ایک اداسی نما وحشت سی ہوتی ہے کہ وقت کتنا بے رحم ہے کہ آج ہمارے وقت کا شائد ایک بھی ذی روح آج اس میڈیکل کالج میں نہیں ، کہاں گئے وہ دن جب امتحانوں اور سپلیوں کی تیاریاں ہم ایک دوسرے کے کمرے میں جا کر کیا کرتے تھے۔ واہ رے وقت،ہم رہے نہ ہم تم رہے نہ تم ،اب دیکھنے کے جن کو آنکھیں ترسیتیاں ہیں، خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کے پنہاںہوگئیں۔آج بڑے بڑے ٹاپر، بڑے بڑے مقرر، بڑے بڑے جی دار منوں مٹی تلے خاک نشیں ہیں اور یہ سبق دے رہے ہیں کہ صرف دوسروں کی بھلائی کرنے واے اپنی ذات کی نفی کرنے والے لافانی ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے محترم مرحوم اساتذہ، انتہائی قابل احترام سینئیز جیسے سمیع ا لہ شیخ مر حوم جیسے کئی اس دیار فانی میں اب نہیں اور جونیر بھی کئی دوست اب شائد اس دنیا میں موجود نہیں ان کے لئے ایک الگ نشست ایک الگ ، مضمون درکارہو گا ۔ آج میں ایک قرض اور فرض سمجھ کرجانے والوں پر لکھ رہا ہوں کل کوہو سکتا ہے کسی کو ہمارے اوپر لکھنے کی بھی توفیق ہو۔ اس میںمجھے مدد دینے پر اعجاز شاہ ، میرے کلاس فیلو، سابق پرنسپل کیو ایم سی کا مشکور ہوں کہ اس نفسا نفسی کی دنیا میں دوسروں کے لئے مجھے ٹائم دیتے رہے اور معلومات فراہم کر تے رہے ان مرحومین کے لئے جن کے لئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ کہاں گئے وہ دن کہتے تھے تیری یاد میں، تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے۔ ان کی جب یاد آتی ہے تو بے ساختہ آنسو بہہ جاتے ہیں لیکن
    ان آنسووں کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا    جن آنسووں سے ہم نے فسانے بنا لئے
   اور بقول غالب جاتے ہوے کہتے ہو کہ قیامت کو ملیں گے کیا خوب قیامت کا گویا کوئی دن اور
           

ای پیپر دی نیشن