برطانوی نژاد پاکستانی کار ریسر انعام احمد نے کہا ہے کہ ان کا مقصد مشرق وسطیٰ کے نوجوانوں کو تربیت دے کر مسلم ویورپی ممالک کے درمیان ریسنگ کے موجود فرق کو ختم کرنا ہے۔25 سالہ احمد لندن میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 8 سال کی عمر 'گوکارٹ ٹریکس' پر ریسنگ شروع کی۔ ان کا ریسنگ کا یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور 12 سال کی عمر میں احمد برطانوی فارمولا 3 چیمپیئن بن گیا۔ جبکہ 14 سال کی عمر میں یورپی و ورلڈ کارٹنگ چیمپیئن بن گئے۔اکتوبر 2024 میں احمد اور اس کے دوست معاذ چغتائی نے مشرق وسطیٰ کے نوجوان ریسرز کو تربیت دینے کے لیے 'اوریجن موٹر سپورٹ اکیڈمی' کا آغاز کیا۔احمد نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا 'مشرق وسطیٰ اور مسلم ممالک ریسنگ کے مقابلوں میں بہت پیچھے ہیں۔ میں ان کو اس میدان میں آگے لانے کے لیے کوششیں کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ یہ بہت جلد آگے بڑھیں گے۔احمد نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 'موٹر سپورٹ' میں سرمایہ کاری کی ہے۔برطانوی پاکستانی فارمولا چیمپئن مسلم ممالک اور یورپ کے درمیان موٹرسپورٹ کے فرق کو ختم کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ خیال رہے احمد نے گزشتہ سال 'موٹر سپورٹ کمپنی' کے سربراہ مارٹن وائٹیکر سے سعودی عرب میں ملاقات کی ہے۔احمد نے اکیڈمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی دبئی میں رجسٹرڈ ہے۔ اس وقت 5 ریسنگ ڈرائیورز تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اکیڈمی میں معاذ چغتائی ٹیم پرنسپل کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔احمد نے بتایا کہ سعودی عرب میں ریسنگ کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے سعودی ریسنگ ڈرائیورز تربیت و کھیل کے لیے دبئی آتے ہیں۔ تاہم ریاض میں سیاحتی میگا پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد ریسنگ ڈرائیورز کو ریاض میں ہی تربیت دی جائے گی۔احمد کا کہنا ہے کہ زیادہ تر برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کار ریسرز تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ احمد نے کہا کہ پاکستان میں موٹر سپورٹ کے لیے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ انفراسٹرکچر کے بغیر آپ کو ٹیلنٹ نہیں ملے گا۔'احمد نے کہا میں جہاں بھی جاتا ہوں مسلم عالمی چیمپیئن کے طور پر لوگ مجھے دیکھتے ہیں۔ ڈرائیورز میرے پاس تربیت کے لیے آتے ہیں اور وہ سیکھنا چاہتے ہیں۔ میں مسلم ڈرائیورز کو تربیت دینا چاہتا ہوں اور مسلم ملک میں رہنا چاہتا ہوں۔ یہی میرا ہدف ہے۔