حفیظ اللہ خان
سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے اِن احباب کا وہ مقروض ہو جو زندگی بھر ان کے قرض جھکا نہیں سکوں گا ان میں سے ایک تو محترم علامہ عبد الستار عاصم صاحب ہیں جنہوں نے مجھے چند روز قبل کندھن (کتاب)' میں نے آئین بنتے دیکھا' بھیجی اور دوسری شخصیت محترم نذیر احمد خان صاحب ہیں ان کی طرف سے کچھ خاص کتابیں جن میں تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی اور خاص کر مولانا شبیر علی تھانوی صاحب کے خطوط قابل ذکر ہیں جو مجھے بھیجیں گئیں۔ میں ایک نیم خواندہ انسان ہوں نہ جانے کیوں ان لائقِ تعظیم حضرات نے مجھے بڑے انشاءپردازوں کے گروپ میں لا کھڑا کردیا ہے۔
جی تو میں دونوں کتابوں سے ایک ہی موضوع پرکچھ اقتباسات آپ کے ساتھ شئیر کرونگا پہلی کتاب کے دو مصنفین ہیں ایک الطاف حسن قریشی صاحب اور پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ صاحب ہیں ، آپ تحریر کرتے ہیں۔
ہندی ا±ردو تنازع کے بعد دوسرا خود ساختہ تنازع انگریز کی آغوش میں کانگریس کی پیدائش اور پرورش سے کھڑا ہوا۔ انڈین نیشنل کانگریس کا بانی اے او ہیوم A.O.Hume انڈین سول سروس کا ایک ریٹائرڈ افسر تھا جو 1849 ءمیں بنگال سول سروس میں شامل ہوا اور اعلیٰ عہدوں پر کام کرتا رہا۔ وہ برطانوی حکومت کا بہت زیادہ خیر خواہ تھا اور اے ملازمت کے دوران ہی 1878 ء کے اواخر میں یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں سیاسی بے چینی، عوام کی اقتصادی بد حالی اور بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کہیں 1857 ءکی شکل اختیار نہ کر جائے، لہذا کوئی ایسی تدبیر سوچی جائے جس سے ہندوستانیوں کے دلوں کا غبار نکلتا رہے اور وہ خفیہ سازش کی طرف مائل نہ ہوں۔ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہیوم کو یہ خیال سرسید کی کتاب رسالہ اسباب بغاوت ہند پڑھ کر آیا جو 1859 ءمیں شائع ہوئی جس کا تذکرہ اس نے خود صاحبزادہ آفتاب احمد خان سے کیا۔ ا±س نے مارچ 1883 ء میں کلکتہ یونیورسٹی کے گریجوایٹس کے نام ایک خط لکھا اور انہیں ذاتی آسائش چھوڑنے اور عوام کے معاملات میں دلچسپی لینے کا مشورہ دیا۔کانگریس ابتدا ہی سے انگریز پرست جماعت تھی۔ اس کا قیام ایک انگریز کے ہاتھوں عمل میں آیا تھا اور اعلیٰ برطانوی شخصیات اس کے اجلاسوں کی صدارت کر رہی تھیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان اس کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے رہے۔ ویڈر برن جو 29 سال کانگریس سے وابستہ رہا، ا±س نے انگلستان میں اس کی شاخ قائم کی اور اسے چلانے کے لیے ایک ہزار پونڈ سالانہ خرچ کرتا رہا۔
کانگریس کے پلیٹ فارم سے برسوں برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری کے اعلانات ہوتے رہے۔ 1886 ء میں دادا بھائی نوروجی نے برطانوی حکومت سے وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ ہمیں مردوں کی طرح اعلان کرنا چاہیے کہ ہم مکمل طور پر انگریزوں کے وفادار ہیں، کیونکہ ہمیں ا±ن احسانات کا پورا احساس ہے جو برطانوی حکومت ہم پر کر رہی ہے۔ ہمیں انگریزی تعلیم کی قدر کرنی چاہیے جس نے ہمارے اندھیروں کو ا±جالوں میںبدل دیا ہے۔
مسلمانوں کو مزید نقصان پہنچانے اور انہیں اپنے جائز حقوق سے محروم کرنے کی خاطر ان بر ہمنوں نے تیسری چال یہ چلی کہ اپنی نام نہاد وفاداری کی آڑ میں ایک انگریز مسٹر اے، او ہیوم کی معرفت لارڈ فرن وائسرائے ہند کو شیشہ میں اتارا اور ان سے ایک سیاسی جماعت بنانے کی اجازت حاصل کر لی تاکہ حاکم و محکوم کے تعلقات کو بہتر اور مفید بنانے کے لیے:۔
ہندوستان کے سیاستدان اصحاب جمع ہو کہ گورنمنٹ کو یہ بتائیں کہ اس کا نظام کن امور میں ناقص ہے اور اس کی حالت کس طرح بہتر کی جا سکتی ہے۔ اس طرح انہوں نے 1884ء میں مسٹر اے، او ہیوم کے ہاتھ سے کانگرس کا سنگ بنیا در کھایا اور حکومت کے مشیر بن کر مسلمانوں کو طرح طرح کے نقصان پہنچانے میں مصروف ہو گئے۔ کانگریس بظاہر تو ایک مشیر جماعت کی حیثیت سے قائم کی گئی تھی۔ مگر فی الحقیقت اس کا مقصد حکومت کو مشورے دینا نہیں تھا بلکہ:۔
الف:۔ ایسے حالات پیدا کرنا تھا جن کے ذریعہ یہ بتدریج حکومت پر قبضہ کر سکے چنانچہ 1885ءمیں بمقام پونا کانگرس کا جو پہلا سالانہ جلسہ ہوا، اس میں حکومتِ سے چند ایسے پر زور مطالبات کئے گئے کہ وہی لار ڈڈ فرن جس کے مشورہ واجازت سے یہ جماعت معرض وجود میں آئی تھی، اسے حکومت کا مخالف تصور کر کے اس سے کبیدہ خاطر ہو گئے۔
ب:۔ اس کا دوسرا مقصد ملک میں ہندو دھرم کا احیاءتھا۔ جس کی وضاحت خود ''تاریخ کانگریس'' میں گاندھی جی کے منظور نظر، کانگریس کی مجلس عاملہ کے رکن اور آل انڈیا اسٹیٹس پیپل کا نفرنس کے صدر ڈاکٹر پٹا بھٹی ستیا رامیہ نے یوں کر دی کہ:۔
یہ تمام (بر ہمو سماج اور آر یہ سماج وغیرہ کی) تحریکیں حقیقتہ ہندوستانی قومیت کی زنجیر کی مختلف کڑیاں تھیں۔ اور اب قوم کا فریضہ تھا کہ ایک جامع چیز پیدا کی جائے، جس کے ذریعہ تعصبات اور اوہام کو رفع کیا جائے اور قدیم دین یعنی '' ویدانتی تصوریت'' کا احیاءکر کے اور نکھار کر اسے عہد جدید کی قومیت سے مطابقت دے کر چلایا جا سکے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے ذریعہ اس مشن کو پورا ہونا مقدر تھاہندوﺅں نے دنیا پر یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ کانگریس ایک ہندو آرگنائزیشن نہیں۔ اس کا نام انڈین نیشنل کانگریس رکھا۔ اس سے ان کا ایک مقصد انگریزوں پر بھی یہ واضع کرنا تھاکہ ان کے پیش کردہ مطالبات کو ملک کے تمام فرقوں کی تائید حاصل ہے حالانکہ کانگریس فی الواقعہ ملک کے تمام فرقوں کی نمائندہ نہ تھی بلکہ ایک خالص ہندو جماعت تھی جس نے ’نیشنل‘ نقاب ا±وڑھ کر دنیا کو فریب دے رکھا تھا۔بالآخر ہندوستان کے مشہور برہمن اور کانگریس کے صدر پنڈت موتی لال نہرو نے کانپور میں تقریر کرتے ہوئے اس کا یہ نقاب یوں الٹ دیا کہ'' یہ ایجی ٹیشن بالکل بے بنیاد ہے کہ میں ہندو نہیں۔ میں ایساہی ہندو ہوں،جیسے خود پنڈت مالوی ہیں۔میں ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ خود کانگریس ہندو جماعت ہے اس میں21- 1920ءمیں تھوڑے سے مسلمان شامل ہوگئے تھے۔ ورنہ ابتدائ سے یہ ہندو جماعت ہے ''۔ حوالہ تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی ص 23۔ بعد میں رام راج کی مہم، راشٹریہ سوائم سیوک سنگ،مسلمانوں کا بائیکاٹ، آریہ سماج تحریک، گ? رکھشا کا فتنہ (گائے کی حفاظت ) کے پیچھے کانگریس کا ہاتھ تھا۔
میرے خیال سے ان حضرات کیلئے جو اب بھی کانگریسی نظریہ رکھتے ہیں یا اکہنڈ بھارت کے گن گاتے ہیںا±ن کیلئے اتنا ہی کافی ہے کیا ا±ن حالات میں مسلمانوں کی حفاظت کیلئے مسلم لیگ کا قیام لازمی نہیں تھا؟ باقی مضامین پر گفتگو پھر سہی