سید محمد علی
syedhamdani012@gmail.com
سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک ایسے پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے جہاں خیالات، جذبات، خبروں اور رائے کا آزادانہ تبادلہ ممکن ہو گیا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں ایک فرد بھی اپنی آواز کو لاکھوں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ طاقتور ذریعہ بن چکا ہے اظہار کا، احتجاج کا، حمایت کا، مخالفت کا، اور سب سے بڑھ کر ایکٹیوزم کا۔ سوشل میڈیا ایکٹیوزم کا مطلب ہے سماجی مسائل کے لیے آواز اٹھانا، لوگوں کو متحرک کرنا، انصاف کے لیے آواز بننا، اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونا — مگر کیا یہ سب کچھ واقعی حقیقی تبدیلی لا رہا ہے؟ یا پھر یہ صرف دکھاوا ہے، کلک بیٹ ہے، ایک وقتی رجحان ہے جس کا مقصد خود کو باشعور اور حساس ظاہر کرنا ہے؟ آج کے دور میں جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو اس کا پہلا ردعمل سوشل میڈیا پر آتا ہے۔ کوئی ظلم ہو، زیادتی ہو، ناانصافی ہو یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی — سب سے پہلے اس کے بارے میں ٹویٹس ہوتے ہیں، پوسٹس لکھی جاتی ہیں، ہیش ٹیگز چلائے جاتے ہیں، تصویریں اور ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں، اور یوں ایک ہجوم بن جاتا ہے جو کسی مقصد کے لیے آواز بلند کر رہا ہوتا ہے۔ یہ بظاہر بہت خوش آئند نظر آتا ہے، کیونکہ ماضی میں ان مسائل کو سننے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔ مگر جب ہم اس عمل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو ایک افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے: یہ آوازیں اکثر محض وقتی ہوتی ہیں، ان میں استقامت نہیں ہوتی، ان کا کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آتا، اور اکثر یہ صرف اپنی پروفائل کو خوبصورت دکھانے کے لیے ہوتی ہیں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آج کا سوشل میڈیا صارف اکثر جذباتی ہوتا ہے مگر معلوماتی نہیں۔ وہ صرف اس لیے کسی ہیش ٹیگ کا حصہ بنتا ہے کہ وہ ٹرینڈنگ ہے۔ چاہے اسے مسئلے کی حقیقت کا علم ہو یا نہ ہو، وہ پوسٹ کر کے سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ یہ عمل جسے "پرفارمیٹیو ایکٹیوزم" کہا جاتا ہے، درحقیقت سوشل میڈیا ایکٹیوزم کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ لوگ اپنی ساکھ بنانے کے لیے، اپنی امیج کو بہتر دکھانے کے لیے، اور دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے ان مسائل پر بات کرتے ہیں جن کا انہیں گہرائی سے علم نہیں ہوتا۔ نتیجتاً، سنجیدہ اور حساس مسائل بھی محض فیشن بن کر رہ جاتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود، ہمیں انکار نہیں کہ سوشل میڈیا نے کچھ تحریکوں کو زندگی دی ہے، آواز دی ہے، اور دنیا بھر میں انقلابی تبدیلیاں لانے میں مدد دی ہے۔ دنیا بھر میں #MeToo مہم نے خواتین کو جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت دی۔ BlackLivesMatter نے امریکہ میں نسلی امتیاز کے خلاف ایک زبردست احتجاجی تحریک کو جنم دیا۔ پاکستان میں JusticeForZainab جیسے ہیش ٹیگز نے نہ صرف قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا بلکہ بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر قومی سطح پر بیداری پیدا کی۔ فلسطین، کشمیر، افغانستان، اور دیگر مظلوم خطوں کے حق میں آواز اٹھانے میں بھی سوشل میڈیا نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ آوازیں کب تک بلند رہیں؟ کب تک لوگ ان ہیش ٹیگز کا حصہ رہے؟ اور کب ان کی توجہ کسی اور ٹرینڈ پر منتقل ہو گئی؟ سوشل میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر چیز عارضی ہوتی ہے۔ آج جس ہیش ٹیگ پر لاکھوں پوسٹس ہوتی ہیں، کل وہ گم ہو جاتا ہے۔ کل کسی اور مسئلے پر شور مچتا ہے اور پہلے والا معاملہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اس عدم تسلسل کی وجہ سے بہت سے مسائل مستقل توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ ہیش ٹیگز مخصوص طبقے کے لیے زیادہ مقبول ہوتے ہیں، اور کچھ مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی شامل ہے، جو اپنی ریٹنگ کے لیے مخصوص معاملات کو زیادہ اچھالتا ہے، اور بعض حساس موضوعات کو دبائے رکھتا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا صارفین بھی اسی رخ پر چلتے ہیں جو میڈیا انہیں دکھاتا ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹیوزم کے ضمن میں ایک اور خطرناک رحجان جعلی معلومات اور غیر مصدقہ خبروں کا پھیلاؤ ہے۔ اکثر لوگ بغیر تحقیق کے کسی بھی تصویر یا ویڈیو کو سچ مان کر شیئر کر دیتے ہیں۔ ایسا کئی بار ہوا کہ کسی پرانے واقعے کی تصویر کو موجودہ تناظر میں پیش کر کے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا گیا۔ ایسی غلط معلومات نہ صرف ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ اصل مسئلے کی سنگینی کو بھی کم کر دیتی ہیں۔ ذمہ دار ایکٹیوزم کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی بات کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کی جائے، اس کے ماخذ کو دیکھا جائے، اور یہ سمجھا جائے کہ اس کا اثر کیا ہو گا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا سوشل میڈیا پر ہماری آواز محض جذباتی ہے یا ہم اس کے ساتھ عملی اقدامات بھی کر رہے ہیں؟ کیا ہم صرف پوسٹ کرنے تک محدود ہیں یا ہم کسی مہم میں حصہ لے رہے ہیں، کسی مظلوم کی مدد کر رہے ہیں، کسی قانونی یا سماجی بہتری کے لیے کچھ کر رہے ہیں؟ نوجوان طبقہ جو سوشل میڈیا کا سب سے بڑا صارف ہے، وہ اس تبدیلی کا محرک بھی بن سکتا ہے اور اس کا شکار بھی۔ اگر نوجوان صرف ٹرینڈز کی دوڑ میں شامل ہوں، اور ان کے پاس نہ تو علم ہو، نہ تحقیق، نہ جذبہ، تو وہ اس پلیٹ فارم کو ضائع کر دیں گے۔ لیکن اگر یہی نوجوان تحقیق کے ساتھ، شعور کے ساتھ، اور مستقل مزاجی سے کسی مقصد کے لیے آواز بلند کریں، تو یہ دنیا بدل سکتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر بڑی تبدیلی کی ابتدا ایک چھوٹے قدم سے ہوتی ہے، اور سوشل میڈیا وہ پہلا قدم ہو سکتا ہے اگر اسے سمجھداری سے استعمال کیا جائے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں روایتی میڈیا محدود ہے، اور جہاں کئی مسائل پر کھل کر بات کرنا ممکن نہیں، سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک نیا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ یہاں مظلوم طبقہ اپنی آواز بلند کر سکتا ہے، یہاں کوئی طالبعلم اپنی مشکلات بیان کر سکتا ہے، یہاں کوئی عورت اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی نشاندہی کر سکتی ہے، اور یہاں اقلیتیں بھی اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ لیکن اس سب کے لیے ضروری ہے کہ صارفین اس پلیٹ فارم کو سنجیدگی سے لیں، اپنی ذمہ داری کو سمجھیں، اور صرف وقتی جوش میں بہنے کی بجائے مستقل مزاجی اور علمی بنیادوں پر کام کریں۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں جہاں ہر روز ایک نیا ٹرینڈ ابھرتا ہے، وہاں ضروری ہے کہ ہم خود سے یہ سوال کریں: کیا ہم واقعی کسی تبدیلی کے خواہاں ہیں یا صرف ایک ہجوم کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟ کیا ہماری پوسٹس کسی کی زندگی بہتر بنا رہی ہیں یا صرف ہمارے "likes" اور "followers" میں اضافہ کر رہی ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں یا صرف اس لیے بول رہے ہیں تاکہ دوسروں کو لگے کہ ہم باشعور ہیں؟ ان سوالات کے جواب ہی ہماری نیت کو واضح کریں گے، اور وہی نیت سوشل میڈیا ایکٹیوزم کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرے گی۔ آخر میں، سوشل میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ ہمیں آواز دیتا ہے، موقع دیتا ہے، پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس کی طاقت کا دارومدار اس کے استعمال پر ہے۔ اگر ہم اسے محض تفریح، شہرت یا دکھاوے کے لیے استعمال کریں گے تو یہ جلد ہی بے اثر ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم اسے سنجیدگی، تحقیق، اور عملی اقدامات کے ساتھ استعمال کریں، تو یہ ایک ایسا ذریعہ بن سکتا ہے جو واقعی دنیا بدل دے۔ ایک پوسٹ، ایک ہیش ٹیگ، ایک ویڈیو — یہ سب تبدیلی کا آغاز ہو سکتے ہیں، مگر ان کی تاثیر اس وقت بڑھتی ہے جب ان کے ساتھ اخلاص، شعور، اور عمل شامل ہو۔