عید کے بعد کچھ نہیں ہونے والا

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت کے بعد پی ٹی آئی عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہے جس میں امن و امان خصوصاً بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر غور کیا جائے گا- محمود خان اچکزئی کے گھر افطار ڈنر کے موقع پر پی ٹی آئی اور اْس کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ حکومت کے سوا باقی سب جماعتوں کو آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی- کانفرنس کا یک نکاتی ایجنڈا ہو گا "ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال"-
حالیہ دنوں میں درہ بولان میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے اور ٹرین کے 400 سے زیاد ہ مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے- ٹرین پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تھا- جنہوں نے افغانستان کے اندر اپنی آماجگاہیں بنا رکھی ہیں- جہاں سے دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے- اور پھر پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں- بی ایل اے کا ہدف سیکورٹی فورسزاور سرکاری تنصیبات ہوتی ہیں- 
پی ٹی آئی اور اتحاد میں شامل جماعتوں نے عید کے بعد شروع ہونے والی تحریک کے بنیادی ڈھانچے کی منظوری دے دی ہے- ابتدائی طور پر تین ذیلی کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے- اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی- کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لیے جو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں اْن میں پہلی رابطہ کمیٹی ہے جس کی سربراہی اسد قیصر کو سونپی گئی ہے جبکہ سیاسی سرگرمیوں کی دوسری رابطہ کمیٹی کا سربراہ حامد رضا کو مقرر کیا گیا ہے-تشکیل دی گئی تیسری کمیٹی سیاسی کمیٹی ہو گی جو لطیف کھوسہ کی سربراہی میں کام کرے گی- یہ کمیٹی اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ مل کر آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا بندوبست کرے گی- اپوزیشن اتحاد میں شامل مجلس وحدت المسلمین  (ایم ڈبلیو ایم) کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا ہے اپوزیشن ایک بات پر تو متفق ہے کہ پاکستان کا وجود اس وقت خطرے میں ہے- ضروری ہو گیا ہے آئین کی حکمرانی کے لیے اکٹھے ہوا جائے- عید گزرے گی تو اپوزیشن کا گرینڈ الائنس سب کے سامنے آ  جائے گا-
اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس نے یہ بھی کہا معاشرے رول آف لاء کے بغیر نہیں چل سکتے- جہاں عوام کو بنیادی حقوق نہ ملیں ، اظہار آزادی رائے سلب کر لی جائے، وہاں معاشرے آگے نہیں بڑھ سکتے- اس طرح کی بیان بازی اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کی طرف سے بھی کی  جا رہی ہے جبکہ حکومت کو ہر طرح سے مطعون کیا جا رہا ہے-
لیکن یہاں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ جمعیت علماء  اسلام کیا اس گرینڈ الائنس کا حصہ بنے گی؟ اگرچہ ابھی تک اس کا جواب منفی میں ہے- اپوزیشن لیڈر عمرایوب ایک جگہ گویا ہوئے کہ مولانا کو اتحاد کے لیے منانے کی کوشش کی جائے گی- اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مولانا ابھی تک مانے نہیں ہیں- کیسے مانیں گے؟ کن شرائط پر رضامند ہوں گے؟ یہ طے ہونا باقی ہے- پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کے باوجود مولانا فضل الرحمنٰ کا ساتھیوں سمیت اس اجلاس میں آ جانا غمازی کرتا ہے کہ مولانا اپنی ہی سوچ، فکر اور زاویے کے مطابق سیاست کر رہے ہیں- قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اْن کے خطاب نے صاف ظاہر کر دیا کہ مولانا کسی احتجاجی تحریک سے ہٹ کر سیاست کرنا چاہتے ہیں- اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے اور یقین بھی کیا جا سکتا ہے کہ مولانا کسی حال میں بھی اس اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصّہ نہیں بنیں گے-
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا اگر گرینڈ الائنس میں نہ گئے تو کیا ہو گا؟ ہوتا تو وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے- لیکن زمینی حقائق یہی ظاہر کرتے ہیں کہ مولانا کی جانب سے گرینڈ الائنس کا حصہ نہ بننے کی  صورت میں اس الائنس کا وہ حشر ہو گا جو دنیا دیکھے گی جبکہ دیگر تحریکوں کی طرح پی ٹی آئی کی یہ تحریک بھی ناکامی سے دوچار ہو گی- پی ٹی آئی اتحاد میں جو جماعتیں شامل ہیں، عوامی سطح پر اْن کو وہ پذیرائی حاصل نہیں، جو ہونی چاہئے- اتحاد کا حصہ بن کر شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل جیسے لوگ کیا کر لیں گے- پھر یہ کہ جوعلاقائی جماعتیں اس گرینڈ الائنس کا حصہ بنیں گی اْن کی بھی سیاست میں ثانوی حیثیت ہے- صرف جمعیت علماء اسلام ہی ہے جو سٹریٹ پاور رکھتی ہے اور ایک منظم جماعت کے طور پر مانی جاتی ہے- مولانا کے ہزاروں "فالورز" ہیں- کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں- مولانا کے گرینڈ الائنس میں شامل نہ ہونے کی صورت میں یہ "الائنس" کبھی اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتا-
پی ٹی آئی کی سب سے بڑی جدوجد بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہے- پی ٹی آئی سمجھتی ہے بانی رہا ہو گئے تو حکومت کا جانا ٹھہر جائے گا- مگر یہ محض خیالی  باتیں ہیں- عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہونے والا کہ بانی کی جیل سے رہائی ممکن ہو سکے-190ملین پاؤنڈ میں انہیں سزا ہو چکی ہے- اور کئی کیس ابھی ٹرائل کے منتظر ہیں- ان میں اہم کیس 9 مئی بھی شامل ہے- تجزیہ کاروں کا کہنا ہے 9 مئی کے مقدمات کا ٹرائل ہر حال میں فوجی عدالت میں ہونا ہے جہاں ان مقدمات کا سپیڈی ٹرائل ہو گا- اور ہم سب جانتے ہیں "سپیڈی ٹرائل" کا مطلب کیا ہوتا ہے- اگرچہ فوجی عدالت سے ملنے والی ہر سزا کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے- تاہم وہاں بھی اب حالات بانی کے لیے بالکل بھی موافق نہیں- اسٹیبلشمنٹ سے بانی کی لڑائی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی- چونکہ بانی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے "سرنڈر" کرنے کو تیار نہیں- اپنی ضد پر قائم ہیں- اس لییکوئی چانس نہیں کہ بانی کو کوئی رعایت مل سکے-
پہلے اگر کوئی مشکل درپیش ہوتی تو جنرل فیض مدد کر دیتے تھے- مگر اب جنرل فیض جیسا کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ میں موجود نہیں- میاں ثاقب نثار جیسا کوئی جج بھی نہیں کہ بانی کی مدد ہو سکے- اس لیے سب راستے مفقود اور بند ہیں- ایک طرح سے بانی بند گلی میں آ چکے ہیں-جہاں سے کوئی بھی راستہ کسی منزل کی طرف نہیں جاتا- 
پی ٹی آئی اگرچہ ایک "گرینڈ الائنس" کی بات کر رہی ہے لیکن اہم رہنماوں کو خود بھی یقین ہے کہ الائنس بنا بھی تو بے معنی ہو گا- پی ٹی آئی کے اندر بھی بہت زیادہ انتشار اور خلفشار ہے- جماعت میں کئی گروپ بن چکے ہیں- جس نے پی ٹی آئی کو کمزور اور ناتواں کر دیا ہے- فیصل واوڈا کی ایک بات یاد رکھنے کی ہے  کہ" عید کے بعد کچھ نہیں ہونے والا- نہ گرینڈ الائنس ، نہ کوئی تحریک"۔مولانا بھی اْن کے ساتھ نہیں ملیں گے- یوں "الائنس" بننے سے پہلے ہییہ گرینڈ الائنس "ٹھس" ہو جائے گا- 
واوڈا کی یہ بات ہمیں اس لیے ماننی پڑے گی کہ اب تک  انہوں نے جتنی بھی پیش گوئیاں کی ہیں سب کی سب حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہیں- ویسے بھی اسٹبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں- لہٰذا اْن کی اس پیش گوئی پر بھی اعتبار اور یقین کر ہی لینا  چاہییکہ "عید کے بعد کچھ نہیں ہونے والا"- 
سیاست ہرگز ہٹ دھرمی کا نام نہیں ہے- سیاست میں ایک دوسرے کو قبول اور برداشت کیا جاتا ہے- لیکن بانی اس سوچ اور فکر کے حامل نہیں ، شاید اس لیے اکیلے رہ گئے ہیں  اور ناکام ہیں-

ای پیپر دی نیشن