بھارت میں ’’30ہزار‘‘ مساجد اور مزار گرانے کی تیاریا ں ہیں ۔ ایسا ہو گا یقینا ہوگا۔ کیونکہ اطلاعات نہیں ۔ تیاریوں بابت خبر ہے۔ ہزاروں مساجد۔ عید گاہیں ۔ قلعے ہی نہیں ’’25کروڑ مسلمان‘‘ بھی شدید خطرے میں ہیں۔ بہت بڑا طوفان ہے جو انڈیا میں اُبلنے کو ہے۔ اگر ’’متشدد گروپ‘‘ نے اپنے ارادوں میں تبدیلی نہیں کی تو پھر یاد رکھیں ’’ایک اور پاکستان‘‘بنے گا۔ انڈیا کے وجود سے ایک نئی ’’مسلم مملکت ‘‘ جنم لے گی۔ کیونکہ مسلمان چاہے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں کتنا ہی سست کیوں نہ ہو۔ بھلے وہ بنیادی انسانی حقوق بابت کتنا ہی کمتر درجہ پر کیوں نہ ہو ’’ایمان‘‘ کے معاملہ میں وہ متحد ہے مشرق سے لیکر مغرب تک۔ ایک یہی واحد چیز ہے جس نے ’’کفار‘‘ کو ہمیشہ خوفزدہ کیے رکھا اور اب بھی مسلم دشمن قوتیں خائف ہی نہیں انتہائی خوف کا شکار ہیں ۔ بہتر ہے کہ انڈین حکومت خطہ میں نئے بحرانوں کو پیدا ہونے سے روکے اِس طرح کہ پوری دنیا بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے تو اِن حالات میں غیری فطری۔ ظالمانہ اقدامات سے گریز کرنا ضروری ہے ۔صدر ٹرمپ دل سے امن کے خواہاں ہیں ۔ ’’امریکی صدر‘‘ کو چاہیے کہ وہ آزاد فلسطین کے قیام اور مقبوضہ وادی پر جبری قبضہ کو ختم کروانے میں اپنا کردار سرگرمی سے ادا کریں ۔دنیا معاشی بحرانوں کا بھی شکار ہے صرف ’’امن‘‘ ہی خوشحالی لا سکتا ہے۔
کتنی چاہتوں ۔ ارمانوں سے لوگوں نے اپنے گھر بنائے ہونگے ۔ بھاری مصارف سے اپنے آرام کدوں کو سجانے والے آج کِس حال میں ہیں ۔ پل بھر میں دنیا بدل گئی۔ چند گھنٹوں میں چھت سے سٹرک پر آگئے جائے عبرت ہے ۔ آجکل کے دور میں ’’5مرلہ‘‘ کی زمین بہت بڑی نعمت سمجھی جاتی ہے وہاں ہزاروں عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں ۔ ’’لاس اینلجس ‘‘ میں ’’6مقامات‘‘ پر لگنے والی آگ ’’40ہزار‘‘ ایکڑز سے زائد رقبہ کو نگل چکی ہے تاحال قابو نہیں پا سکے ۔ بلکہ قابو پانے کی کوششوں میں مزید پھیلتی گئی نہ عام فرد محفوظ رہا نہ مشہور شخصیات اور نہ ہی برقیاتی سکرینوں پر چمکتے دمکتے چہروں کیساتھ عوام کے دل لُبھانے والے شوبز دیومالائی کردار۔ کرونا ۔ سیلاب ۔ زلزلے ۔ پے در پے بھڑکھنے والی آگ (مختصر وقفوں کے بعد تواتر سے) ۔ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور کی ناکامی پر ’’صدر ٹرمپ‘‘ بھی برہم ہوگئے تھے۔ یہاں پر ’’حماس‘‘ کے سربراہ کے الفاظ ذہن میں گونج اُٹھے ۔ ’’آنسو نہیں بُھولیں گے‘‘ آنسو صرف اُنکے نہیں نکلے جو شکار تھے بدترین بربریت نے پوری دنیا کی کروڑوں آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر دیا تھا مہذب دنیا ۔ جمہوری معاشروں کے چند طاقتور لوگوں کے وحشی پن کا مظاہرہ کبھی کِسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ سخت دل ۔ ترش زبان ۔ بارود سے لدے جہاز خالی کر کے بھی اُنکے دلوں میں ٹھنڈک کی لہر نہیں اُٹھ رہی ۔ اربوں ڈالرز کا نقصان دنوں میں ہوگیا ۔ آگ کے مناظر دل دہلا دیتے ہیں اِس سانحہ پر ہمارا دل دکھی ہے تو جن کا اتنا نقصان ہوگیا اُنکے غم کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ ’’اللہ کریم‘‘ ہم سب کو نا گہانی ۔ گہانی آفات ۔ مصائب سے تازیست محفوظ رکھے آمین۔
’’15ماہ‘‘ کی خونی جنگ ۔ سفاکانہ بمباری کے بعد بالاآخر امن معاہدہ ہوگیا۔ عارضی یا پکا۔ یقینا اِس کا تعین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد کا وقت کرے گا۔ پر افسوس معاہدہ کی بازگشت میں ہی شامی فوجی قافلے پر ڈرون حملہ ۔ غزہ پر بمباری ۔ اعلان کے بعد ’’100‘‘ سے زائد فلسطینی شہید کر دئیے گئے تھے۔ ’’غزہ‘‘ میں صحت ۔ تعلیم ۔ خوراک کچھ بھی نہیں بچا۔ صاف ظاہر ہے جب آتش و بارود برستا ہے تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا چاہے طاقتور شخص ہو۔ لاکھوں دلوں میں بستا مشہور ’’فلم ایکٹر‘‘ ہویا پھر عام آدمی ۔ گھنٹوں میں مکمل فتح کے نشہ میں سرشار جوابی مزاحمت میں ’’مہینوں‘‘ پر آگئے تھے شک ہے کہ جنگ مکمل رُک پائے گی بہت ممکن ہے مختصر وقفہ پڑ جائے پر پلان کی تکمیل کو دیکھیں تو ؟؟
ذہنی دباؤ اور خود کشی ایک انسان کے سب سے بڑے دشمن ہیں پھر ذکر ہو ایسے لوگوں کا جو ہوں ہی جنگی جنونی تو لا محالہ درجہ ذیل خبریں ہی سُنتے کو ملتی ہیں۔ ہزاروں اسرائیلی فوجیوں نے لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ خود کشی اسرائیلی فوج میں موت کی دوسری بڑی وجہ بن گئی تھے ۔ متذکرہ تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ دوسری طرف ’’11لاکھ‘‘ وہ بھی فلسطینی بچے ذہنی دباؤ میں مبتلا ہیں ۔ سفاکیت کی کوئی حد نہیں ہوتی نا حق قتل ہونے والے خود دنیا میں آکر بدلہ لینے کی طاقت نہیں رکھتے مگر اُن کا خون ظالموں کو ضرور پست کر دیتا ہے ایک طرف سراسر حق اور دوسری طرف سراسر ظلم ۔ قبضہ گیری ۔ ایک طرف ایمان کی حرارت میں چلنے والے مظلوم انسان دوسری طرف تشدد ۔ بھیانک ۔ مکروہ مظالم کے سایوں میں ملفوف ’’کافر‘‘ بھلا ’’ایمان‘‘ ۔ حق کیساتھ کوئی ٹکرلے سکتا ہے اگر اتنی طاقت ہوتی ’’سر پرستوں‘‘ کے پاس تو آگ نہ بجھا لیتے۔
’’نیا نقشہ‘‘:
گریٹر اسرائیل ۔ نیا نقشہ ۔ خوش قسمتی سے ’’مسلم ممالک‘‘ کے پاس واحد چیز باتی بچی ہے وہ فوراً سے پہلے کر دی گئی یعنی ’’مذمت‘‘سب کو تصیح کر لینی چاہیے یہ کوئی نیا نقشہ نہیں۔ ہم سب کا بچپن اب تک کے وقوع پزیر ہوتے آرہے واقعات کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ بنیادی ضرورت ہے اتحاد کی۔ وہ بھی ہو جائے گا جب سب کی مجبوری بنے گا۔ اب تو دشمن کی لسٹ میں سبھی شامل ہو گئے ہیں تو متحد ہونا مجبوری بن جائے گا۔ ایک طرف قدرتی طور پر بھڑکھنے والی آگ دوسری طرف ’’ظالموں‘‘ کا برپا کردہ ظلم کدہ۔ اب تو ’’کھیل‘‘ ہی کُھل کر سامنے آگیا ہے بہرحال ’’صدر ٹرمپ‘‘ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ اِس وقت چاہیے کہ امریکہ آزاد ۔ خودمختار فلسطین کو قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور مقبوضہ وادی کو بھارت کے ناجائز قبضہ سے آزاد کروائے۔
٭…٭…٭