کراچی اور تورا بورا

 آبادی کے لحاظ سے کراچی دنیا کا تیسرا اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی اس وقت 2020ء کی مردم شماری کے تحت تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے ہٹ کر اس وقت کراچی کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے یہی وجہ ہے کہ کراچی دنیا کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک سے بھی بڑا ہے۔ اس انفرادیت کے تحت دنیا کے کسی بھی ملک کے بشندے کا یہی تاثر ہوگا کہ جتنا بڑا شہر اتنی زیادہ میٹروپولیٹن سہولیات کی فراہمی۔ مگر بالکل ایسا نہیں۔ گزشتہ دنوں چند برسوں بعد کراچی جانا ہوا تو کراچی کو دیکھ کر جہاں ایک طرف احساس مسرت ہوا وہاں دل شکستہ بھی ہوا کہ صوبہ سندھ کے کل ٹیکس میں سے 95 فیصد دینے والا اور  قومی دھارے میں سب سے زیادہ 30 فیصد ٹیکس کا حصہ ڈالنے والا شہر آخر پتھر کے دور میں کیوں نظر آرہا ہے۔ ہر شہر کے دو چہرے ہوتے ہیں۔ ایک خوبصورت اور ایک بد صورت۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ میگا سٹی کی مسلسل بڑھتی ہوئی مشروم آبادیوں کی بدولت چیلنجوں کا سامنا بھی ایک اٹل حقیقت ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومتوں کی بد انتظامی، نالائقی کو جسٹیفائی کیا جا سکے۔ آج بھی کراچی کے شرق و غرب میں تباہ حال انفراسٹرکچر، ٹوٹی سڑکیں، گندگی کے ڈھیر، ابلتے گٹر اور ہر سو پھیلی بدبو کے بھبھوکے، بنا سڑیٹ لائٹس کے گلیاں اور شاہراہیں، بنا جنگلوں اور حفاظتی فصیلوں کے ریتلے اور پتھریلے کھیل کے میدان، باغات اور سبزے کی کمی، شتر بے مہار بڑھے ہوئے گھروں کے تھڑے، پینے والے پانی کے لیے شہریوں کا بوند بوند کے لیے ترسنا، بلیک میں ٹینکرز کا خریدنا ماسوائے چند پوش علاقوں کے جو کہ شہر کا 80 فیصد سے زائد بنتا ہے۔ 24 میں سے 8 گھنٹے بجلی کا ملنا اور بہت سے علاقوں میں بجلی کے لیے ڈائریکٹ کنڈوں کا استعمال اور گھٹارا بسوں پر بیٹھے ہوئے شہریوں کا سفر پتھر کے دور کا ہی تو کراچی ہے۔ جب کوئی ادارہ یا حکومت مطلوبہ تقاضوں کے تحت کام اور کارکردگی میں جدت نہیں لاتی تو ہمارے ہاں ایک مثال دی جاتی ہے کہ "بھئی جو گورا بنا گیا اسی کی بدولت آج کا نظام چل رہا ہے"۔ بالکل اسی طرح ہمارے بزرگ ہی تھے جنہوں نے کراچی کو ایک ماڈل سٹی بنایا تھا جہاں روشنی اور صفائی ستھرائی کی بدولت اسے نہ صرف روشنیوں کا شہر گردانا جاتا تھا بلکہ بمبئی کا جڑواں شہر بھی قرار دیا جاتا تھا۔ آج یہ بمبئی کے ساتھ آبادی کا مقابلے میں تو آ سکتا ہے لیکن انتظامی لحاظ سے اس کی آبادیاں تورا بورا کی منظر کشی کر رہی ہیں۔ معذرت کے ساتھ جب رضیہ غنڈوں میں پھنستی ہے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کھلواڑ ہوتا ہے۔ کراچی کا اصل المیہ یا مسئلہ پیسے کی کمی نہیں بلکہ پیسے پر سیاسی جماعتوں کا شب خون مارنا ہے۔ اس الز ام کو کسی ایک پر نہیں تھوپا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی والے اپنے اپنے مفاد میں اس کراچی کو ایک فٹبال بنا کر ہٹ کرتے رہے۔ 
کراچی کی اس ابتر صورتحال میں پیپلز پارٹی کو ہی سب سے زیادہ ذمہ دار کیوں قرار دیا جاتا ہے؟۔ بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کا سندھ میں قریبا 35 سالہ راج ہے۔ وہ وسائل کے ہوتے ہوئے بھی کراچی کے شہریوں کی خواری اور مشکلات میں رتی بھر کمی کا نا ہونا ہے کہ کراچی کے تاجروں کے حوالے سے بلاول کو چبھنے والے بیان کی حقیقت کا ادراک آپ کوبھی میری طرح کراچی جا کر ہی بخوبی ہو سکتا ہے۔ جنہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ کو لے جائیں اور مریم بی بی کو سندھ کو مستعار دے دیں تاکہ ہم بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔ 
بحیثیت لاہور کے باسی مجھے کراچی جا کر وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی آؤٹ سٹینڈنگ پرفارمینس کا پہلے سے بھی زیادہ معترف ہونا پڑا کہ ویلڈن مریم نواز۔ اور کراچی میں آکر یوں محسوس ہوا کہ آپ کسی یورپی شہر سے اچانک افریقہ کے کسی پسماندہ شہر میں آ بسے ہیں۔ اگرچہ یہ مثال دل گرفتہ کر دینے والی ہے لیکن حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تین دن سے زائد عرصہ کے دوران مختلف شعبوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ لوگ پیپلز پارٹی کے ساتھ کافی نالاں نظر آرہے ہیں جو برملا قیادت کو کرپشن کا منبع قرار دیتے نہیں جھجھکتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آپ ووٹ کاسٹ کرو نہ کرو جیتنا سائیں نے ہی ہے اور یہ لمحہ فکریہ سے کم کی بات نہیں ہے۔ کراچی جانے پر ہی پتہ چلتا ہے کہ سندھ اور کراچی میں ترقی صرف ٹی وی میں ہی ملتی ہے، حقیقت سے اس کا دور دور بھی واسطہ نہیں ہے۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی 50 فٹ لمبی سکرین پر دی جانے والی پریزنٹیشن گڈ ٹو سی گورننس تو ہو سکتی ہے مگر کراچی کے شہریوں کے دکھوں کا حقیقی مداوا نہیں ہے۔ انتظامی کارکردگی کے حوالے سے لاہور اور کراچی 360 ڈگری کے زاویے پر کام کر رہے ہیں۔ مطلب کہ بالکل ہی برعکس۔
اس بات کو کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کراچی شہر کی تقدیر بدلنے میں پیپلز پارٹی یکسر ناکام رہی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وزیر اعلی کوئی سندھ کا وڈیرا قائم علی شاہ جیسا ہو یا بدیشی تعلیم یافتہ سید مراد علی شاہ ہو۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ کراچی کے مسئلے کو تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اتحاد و یگانگت کے ساتھ ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ خدا نخواستہ عوام الناس حقوق پر ڈاکہ مارنے والی کسی بھی سیاسی جماعت کا بستر بوریا گول کر سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن