میں نے کچھ عرصہ پہلے بھی رائے دی تھی کہ نئی نہروں کی تعمیر فوری طور پر روک دینی چاہئے اور وفاق و پنجاب اس معاملے میں تمام وزرائے اعلٰی کی میٹنگ طلب کرکے پانی کی تقسیم کانیا فارمولا طے کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نہروں کی تعمیر پر صوبوں کو اعتماد میں لیکر بداعتمادی کی فضاء کا فوری خاتمہ کریں۔ لیکن ابتدائی طور پر سندھ کی کچھ جماعتوں کی جانب سے احتجاج اور عوام کے احتجاج پر کوئی نوٹس نہ لیا گیا اور دانشوروں و کالم نگاروں نے بھی اس سلسلے میں مناسب طرز عمل اختیار کرنے کا بارہا لکھا لیکن وفاق و پنجاب کی جانب سے نہ تو نہروں کی تعمیر روکی گئی اور نہ ہی اس بارے میں کوئی مثبت اوربھائی چارے والا بیان سامنے آیا بلکہ وفاق کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی جبکہ پنجاب کے شعلہ بیان وزراء کی جانب سے جلتی پر تیل کا کام کرنے والے بیانات دیئے گئے۔اس طرز عمل کے باعث پیپلزپارٹی کو عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے اور صوبے کے حق پر ڈاکے کو روکنے کے لئے میدان میں آنا پڑا۔ اسی طرح سندھ میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ نئی نہروں کی تعمیرکے خلاف بیک آواز ہوکر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وکلاء نے ببرلو بائی پاس دوطرفہ ٹریفک کے لئے بند کررکھا ہے جس سے سندھ کا پنجاب سے زمینی راستہ مکمل طور پر بند ہے۔ جس سے ملکی معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔
وفاق کو یہ نظر نہیں آرہا کہ 2صوبوں میں پہلے ہی حالات ٹھیک نہیں اور شرپسندی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسی صورتحال میں سندھ جوکہ بہت حد تک پرامن تھا، اس کے ساتھ زیادتی کرکے نئی نہروں کے معاملے پر اعتماد میں نہ لینے اور ہٹ دھرمی کے رویئے کے باعث اب سندھ بھر میں پنجاب و وفاق کے خلاف بدگمانی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ سندھ میں رہنے اور کاروبار کرنے والے پنجابی بھی اس معاملے میں پنجاب کے رویئے سے نالاں ہیں اوروہ موجودہ طرز عمل کو وفاق و پنجاب کی تیسری زیادتی تصور کرتے ہیں۔ پہلے جب پنجاب سے بھٹو صاحب اور بی بی شہید کی لاشیں سندھ میں آئیں تو سندھ میں رہنے اور کاروبار کرنے والے پنجابیوں کو وفاق و پنجاب کے کرتا دھرتاؤں کے رویئے کے باعث بہت جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا حالانکہ قصور فیصلہ سازوں کا ہے لیکن عام عوام عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔ کیا وفاق و پنجاب کو یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ بلوچستان میں پہلے ہی شناخت کرکے پنجابیوں کا قتل عام جاری ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں بھارت و دیگر اتحادی ایجنٹ یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ لیکن سندھ میں جوکچھ ہورہا ہے اس کے مکمل ذمہ دار وفاق اور پنجاب ہیں۔
اگر نہروں کے معاملے پر وفاق بے بس ہے تو سندھ کے عوام کو کھل کر بتائیں کہ نئی نہروں کے معاملے میں وفاق فیصلہ سازی کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر فیصلے وفاق و پنجاب نے خود کرنے ہیں تو اس میں اتنی تاخیر کیوں؟ پارلیمنٹ‘ سینیٹ‘ ایپکس کمیٹی سمیت کئی پلیٹ فارم موجود تھے جہاں صوبائی قیادتوں کو مکمل طور پر اعتماد میں لے کرنئی نہروں کی تعمیر کا آغاز کیا جاسکتا تھا لیکن نہروں کی تعمیر پر احتجاج کونظرانداز کرنے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھنے کے باعث ہی آج سندھ کے عوام سڑکوں پر ہیں اور پنجاب سے شدید نفرت کے جذبات کااظہار کیا جارہا ہے۔ چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کرکے من مرضی کے فیصلے مسلط کئے جانے سے ملکی یکجہتی کو شدید خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ سندھ ملک کی معیشت کی سپلائی لائن ہے۔ کراچی سے ہی پورے ملک کی درآمدات و برآمدات ہوتی ہیں۔ سندھ میں آگ لگاکر آپ ملکی معیشت کے استحکام کے دعوؤں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے۔
سندھ تو پہلے ہی ہر معاملے میں امتیازی سلوک کا شکار ہے۔ میگا پروجیکٹس کی بات آئے‘ موٹرویز کی تعمیر کا نام لیں‘ عام شہریوں کو سہولتوں میں اضافے کی بات آئے یا وفاق کے تحت ہونے والے بڑے فیصلے ہوں‘ ہمیشہ سے سندھ کواس قدر حصہ نہیں ملتا جس قدر سندھ سے ملک کو وسائل حاصل ہورہے ہیں۔ کراچی ملکی معیشت کا 70%ریونیو دیتا ہے لیکن کراچی کا لاہور یا اسلام آباد سے موازنہ کرکے دیکھیں تو کراچی کے ساتھ ہر حکومت نے اب تک بہت زیادتی کی ہے۔ کراچی جس قدر ٹیکس اور وسائل پاکستان کو دیتا ہے۔ اگر کراچی کا حق ادا کیا جاتا تو فوری طور پر وفاق کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لئے 100ارب روپے جاری کرکے کراچی کے تمام بنیادی مسائل فوری حل کرنے کا فیصلہ کرتا لیکن وفاق و پنجاب کا طرز عمل ناجائز ہے جس سے نفرتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
سندھ کے ساتھ شروع سے ہی امتیازی سلوک کے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت داد وتحسین کی مستحق ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ’’پاکستان کھپے‘‘ کی بات کی۔ اسی لئے محترم مجید نظامی نے صدرآصف علی زرداری کو ’’مرد حر‘‘ کا لقب دیا تھا۔ اب بھی پیپلزپارٹی نے نہروں کے معاملے میں بھی انتہائی تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا ہے اور کہیں بھی خدانخواستہ ملکی یکجہتی کے بارے میں کوئی دھمکی آمیز بات نہیں کی بلکہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے مسلسل وفاق و پنجاب کو اپنا رویہ درست کرنے کا کہا جارہا ہے اور حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ظاہر ہے وفاق میں موجودہ حکومت کا قیام ہی پیپلزپارٹی کے باعث ہوسکا ہے۔ ایسے میں سندھ کے جائز مطالبات اور بنیادی حقوق کو نظر انداز کئے جانے کے بعد بھی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے رہا ہے تو اس پر ہی آپ اپنا طرز عمل درست کرلیں۔ موجودہ حالات میں وفاق کو اچھی طرح اندازہ ہوجانا چاہئے کہ سندھ میں بے چینی سے ملک قطعی طور پر نہیں چلایا جاسکتا۔ اب سندھ نے عملی طور پر یہ کر دکھایا ہے کہ ملک یھر کی معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔ وفاق نے خود اپنے طرز عمل سے سندھ کے عوام کو اپنی طاقت دکھانے پر مجبور کیا ہے۔ اب اندازہ ہوجانا چاہئے کہ غلط فیصلوں سے ملک کو ناقابل تلافی نقصانات ہوتے ہیں۔
سندھ کونظرانداز کئے جانے کے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے اصولی موقف اختیار کئے جانے اور وفاق سے رویہ درست کئے جانے کی بات انتہائی درست طرز عمل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پنجاب کے کچھ وزراء کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات نے ملک کو بہت معاشی نقصان پہنچایا ہے اور اقتدار کے زعم میں ملکی معیشت کا پہیہ جام کرنے کے بیانات دیئے گئے ہیں۔ نئی نہروں کے معاملے میں کسی عالمی سازش کی بات قطعاً ناجائز ہوگی اور وفاق فوری طور پر اس بارے میں فیصلے کرے۔ نئی نہروں کی تعمیر فوری طورپر روکی جائے۔ تمام صوبائی قیادتوں کو اعتمادمیں لیا جائے۔ وزیراعظم اس مسئلے کو فوری حل کریں تاکہ سندھ میں پائی جانے والے بے چینی کا فوری خاتمہ ہو اور ملکی معیشت کا پہیہ بھی چل پڑے۔
سندھ کے عوام کو سڑکوں پر لاکر اب وفاقی وزیر پانی معین وٹو نے بیان دیا ہے کہ ارسا کے پانی کا متفقہ معاہدہ موجود ہے۔ سندھ میں دو نئی نہروں‘ پنجاب میں دو نئی نہروں اور بلوچستان میں ایک نئی نہر کی تعمیر پرمتفقہ معاہدہ ہوا تھا۔بارشیں نہ ہونے سے دریاؤں میں پانی نہیں تھا تو پورے ملک کے لئے نہیں تھا۔ ان کا یہی بیان چند ماہ پہلے کیوں نہیں آیا۔ جب سندھ میں پہلے روز نئی نہروں پر احتجاج ہوا تھا تو اس وقت ہی نعیم وٹو کو یہ بیان دے کر وفاق کی پوزیشن عوام پرواضح کردینی چاہئے تھی۔ پنجاب کے وزراء کے اشتعال انگیز بیانات کے بعد اب جب پورا سندھ بندہے اور ملکی معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔ سندھ میں بندرگاہوں تک گاڑیوں کا آنا جانا ناممکن ہوچکا ہے تو اب انہیں یہ بیان دینے کا خیال آیا ہے۔ سندھ کا بچہ بچہ احتجاج کر رہا ہے تو پیپلزپارٹی کو سندھ کی نمائندہ جماعت ہونے پرسخت بات کرنی پڑی۔ بہرحال اب وزیراعظم میاں شہبازشریف کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نئی نہروں کے معاملے پر ہر صورت سندھ کو مطمئن کریں تاکہ صوبے میں پائی جانے والی بے چینی کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔