قرارداد پاکستان … پس منظر اور اہمیت

یہ حقیقت اَظہر مِنَ الشَّمس ہے کہ مذہب کی بنیاد پر جو ملت بنتی ہے وہ وطنی قومیت میں گم نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان میں معدودے چند افراد کے علاوہ کبھی ہندوستانی قومیت پیدا کرنے کی نہ کبھی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی۔ شہنشاہ اکبر نے دین الٰہی تخلیق کیا تو مجدد الف ثانی نے مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلام اور کفر دو الگ نظریات ہیں۔ اکبر کا جرنیل مان سنگھ بھی مسلمانوں کو الگ قوم سمجھتا تھا۔ دارا شکوہ کی اکبری سوچ کو اورنگزیب نے ناکام بنا دیا۔ ہندوستان پر برطانوی قبضہ ہونے کے بعد ہندوؤں کا متعصب رویہ دیکھ کر سرسید احمد خان نے باقاعدہ یہ پیش گوئی کی کہ دونوں قومیں زیادہ دیر اکٹھی نہیں رہ سکیں گی۔ ہندو مہاسبھا کے رہنما لالہ راج پت رائے اور ساورکر نے بھی مسلمانوں کو ہمیشہ علیحدہ قوم ہی گردانا۔ وہ دونوں مسلمانوں کو علیحدہ کرنے کے بھی قائل تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر محمد علی جناح بھی ہندوؤں کا متعصب رویہ دیکھ کر قائل ہوگئے کہ جس طرح کی قوم گاندھی اور نہرو بنانا چاہتے ہیں، اس کا واضح مطلب ہندو قوم ہی ہے۔ 1937ء سے 1939ء تک کے کانگریسی راج نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندو صرف رام راج قائم کرنے کے لئے ہی سارے جتن کر رہے ہیں۔ چنانچہ نوشتہ دیوار پڑھ کر ہندوستان کے مسلمان مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہونا شروع ہوگئے۔ 
تاریخ ہند کے مزید پرانے اوراق کھنگالیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند کبھی وحدت کی لڑی میں نہیں پرویا جا سکا تھا۔ شمالی ہندوستان کے دور دراز علاقے ہمیشہ مرکزی حکومت سے کٹے رہے۔ اشوک، چندر گپت اور راجہ ہرش بھی شمالی اور جنوبی ہندوستان کو کوششوں کے باوجود اکٹھا نہ کر سکے۔ اتفاق سے کبھی قلیل مدت کے لئے برصغیر کے بیشتر علاقے ایک جھنڈے تلے جمع ہو بھی گئے تو بھی ان کا اتحاد زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ اکائی میں یکجا نہ ہونے کی بڑی وجہ ذات پات کی تفریق و تمیز رہی۔ منوسمرتی کے مطابق ’’آبادی کی اکثریت (جن میں ویش اور شودر شامل تھے) شہری حقوق سے ہی محروم تھی‘‘۔ صرف گنگا کا میدان (وسطی ہند) آریہ ورت تسلیم کیا جاتا تھا۔ شمالی ہندوستان کے لوگ ملیچھ یعنی ناپاک سمجھے جاتے تھے۔ دکن کے لوگ آریاؤں کے برابر نہیں ہو سکتے تھے۔ راجہ ہرش کے بعد برسرِ اقتدار آنے والے راجپوت ایک دوسرے کے خلاف لڑنے، جنگ و جدل کرنے اور اپنے ہی بھائی بندوں کا خون بے دردی سے بہانے کو جرأت و بہادری کا نام دیتے تھے۔ یہ کریڈٹ بہرحال مغل بادشاہوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے ٹکڑوں میں منقسم برصغیر کو ایک ملک بنا ڈالا۔ اِس وحدت کے باوجود ہندوستان کے باسیوں میں مذہبی، تہذیبی اور لسانی بنیادوں پر شدید اختلافات اور تحفظات سر اٹھاتے رہتے تھے۔ گستاولی بان تقسیم ہند میں رقمطراز ہیں، ’’اِس امر کی بہت کم امید کی جا سکتی ہے کہ اِس غار عمیق کو پار کرکے آپس میں مل جائیں اور ایک قوم بن جائیں‘‘۔ 
1937ء میں کانگریسی وزارتوں کے دور میں مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ سلوک کی انتہا کر دی گئی تھی۔ سکولوں میں مسلمان بچوں سے مہاتما گاندھی کی تصویر کی پوجا کرانا، ہندی کو قومی زبان کا درجہ دینا، واردھا سکیم، ودیا سکیم، ہندو مسلم فسادات اور نہرو کی رابطہ مسلم عوام مہم نے واضح کر دیا تھا کہ آگ اور پانی کا ملاپ نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں پیرپور رپورٹ، شریف رپورٹ، فضل الحق رپورٹ اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس رپورٹ کے مْندَرِجات ہندوؤں کے مسلمانوں کے بارے میں متعصبانہ کردار عیاں کرنے کے لئے کافی تھے۔ 
قائداعظم نے 1937ء میں کانگریسی وزارتوں کے دور میں مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ کھیل کھیلنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، ’’کانگریس کو اصرار ہے کہ اپنی پارٹی سے قطعی لا تعلقی کرو، اپنے پروگرام اور پالیسیوں سے توبہ کرو اور مسلم لیگ کو توڑ دو‘‘۔ مزید کہا ’’معمولی سا اقتدار ملتے ہی اکثریتی قوم نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان ہندوؤں کے لئے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کانگریس یہ کام نیشنلزم کے حسین لفظ میں لپیٹ کر کرتی ہے جبکہ مہاسبھا الفاظ کے چکر میں نہیں پڑتی۔‘‘ 
درج بالا پس منظر اور صورتحال میں مسلمانوں نے اپنی تہذیب، ثقافت اور مذہب کو رفتہ رفتہ ختم کرنے کی ہندوانہ سوچ کا توڑ اور قابلِ قبول حل تلاش کرنے کے لئے تقسیم ہند کی مختلف تجاویز کو منظرِ عام پر لانا شروع کر دیا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کا تصور سب سے پہلے علامہ اقبال نے 1930ء میں الہ آباد میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطبے میں ان الفاظ میں پیش کیا ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی‘‘۔ اِس تجویز کو کیمبرج یونیورسٹی کے مسلمان طلبہ نے بہت پسند کیا۔ 1935ء میں ان طلبہ کے لیڈر چوہدری رحمت علی نے اپنی تنظیم پاکستان نیشنل موومنٹ کے پلیٹ فارم سے تجویز پیش کی کہ ہندوستان میں تین اسلامی ریاستیں قائم کی جائیں۔ 
1۔ پاکستان : جس میں پنجاب، سرحد، سندھ، کشمیر اور بلوچستان شامل ہوں۔
2۔ بانگ اسلام: جس میں بنگال اور آسام شامل ہوں ۔
3۔ عثمانستان: جو حیدر آباد دکن کی ریاست پر مشتمل ہو۔
درج بالا تجویز کے بعد ہندوستان کی تقسیم مسلمانوں کے لئے غوروفکر کا ایک اچھوتا اور من پسند موضوع بن گیا۔ لیاقت علی خان نے بھی میرٹھ میں اس سے ملتی جلتی تجویز پیش کی۔ سر سکندر حیات نے مختلف زون بنانے پر زور دیا۔ چنانچہ 3 فروری 1940ء کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے مختلف تجاویز پر غور و خوض کرنے کے بعد اسے حتمی شکل دے ڈالی جسے 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں ایک قرارداد کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اِس قرارداد میں قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے بصیرت افروز صدارتی خطبہ دیا۔ اس وقت پاکستان کا نام نہیں لیا گیا تھا لیکن ہندو پریس نے مذاق اڑانے کے لئے اِس قرارداد کو قراردادِ پاکستان کہنا شروع کر دیا اور قائداعظم نے پوری جرأت کے ساتھ اِس نام کو قبول کر لیا۔ 
اِس کے بعد حصولِ پاکستان کے لئے مسلم لیگ اور مسلمانوں کو قائداعظم کی قیادت میں چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ یہ لڑائی تیر و تلوار سے نہیں بلکہ دلائل، منطق اور استدلال کے قاعدوں اور ضابطوں کے مطابق فہم و فراست اور عقل و دانش سے لڑی گئی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن