وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا جب پاکستان بنانے کی قرارداد منظور ہوئی تھی۔ مینار پاکستان کے مقام پر 23 مارچ 1940ء کو قائداعظم سمیت تمام اکابرین اکٹھے ہوئے۔ صرف اور صرف سات سال کے بعد ایک عظیم مملکت وجود میں آگئی۔ غور کریں کہ مسلمان بیک وقت انگریزوں، ہندوئوں، سکھوں اور اپنے ابن الوقت مسلمان بھائیوں سے نبردآزما تھے۔ انگریز غلام رکھنا چاہتے تھے، ہندو دبا کر اور خادم بنا کر رکھنا چاہتے تھے جبکہ سکھوں کا رویہ غاصبانہ اور حاکمانہ تھا۔ مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑا طبقہ پاکستان بنانے کا مخالف تھا۔ وہ متحدہ ہندوستان چاہتے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی صدیوں سے ہندوستان پر حکمرانی تھی۔ مسلمانوں نے ایک وسیع و عریض سلطنت کو بہت منظم اور مربوط طریقے سے چلایا تھا۔ دنیا میں ہندوستان کی سلطنت کی مثالیں تھیں۔ مسلمان حاکم اور ہندو محکوم تھے۔ مسلمانوں نے بھائی چارے کی فضا قائم کررکھی تھی۔ یہاں مسلمانوں کی جائیدادیں تھیں، گھر بار، خاندان، عزیزواقارب سب کچھ چھوڑنا آسان نہ تھا۔ لاکھوں لوگوں کی سرکاری نوکریاں تھیں۔ سب کو اپنی جائے پیدائش سے محبت تھی، اپنی جگہ کو چھوڑنا، اپنا گھر بار، اپنے رشتہ دار، اپنی مٹی، اپنا پانی ، اپنی نوکریاں اور اپنی جائیدادیں چھوڑنا کوئی معمولی بات نہ تھی پھر ایک نیا ملک بنانا، نیا آئین بنانا، نیا خزانہ بنانا اور امور مملکت چلانا بہت مشکل کا تھا۔ ایسے میں لاکھوں، کروڑوں، مہاجرین کو آباد کرنا، لُٹے پُٹے لوگوں کو جائے پناہ اور خوراک فراہم کرنا ایک بہت بڑا کام تھا۔ ہزاروں سے زیادہ افراد زخمی تھے جب پاکستان قائم ہوا سینکڑوں عورتیں سے ہندوئوں اور سکھوں کی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ تباہ حالی کے مناظر تھے اور دکھ کی تصویریں آج بھی پاکستان کے کئی میوزیمز میں رکھی ہوئی ہیں۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی یعنی حتمی فیصلہ ہوگیا تھا کہ ایک علیحدہ مسلم مملکت کا قیام عمل میں لانا ہے۔ پھر سات سال بہت کٹھن تھے لیکن مسلمانوں نے اپنے قائد کی رہنمائی میں صرف سات سالوں میں اپنا آزاد ملک قائم کرلیا۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ایک اور امتحان شروع ہوگیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت لوگوں میں جوش و خروش، حب الوطنی اور محنت کا عزم تھا۔ نامساعد حالات کے باوجود پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا۔ روس اور امریکہ سے پاکستان کو دعوت نامے آگئے۔ سب نے پاکستان کو تسلیم کرلیا۔ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بن گیا۔ تمام اسلامی ممالک نے خیرمقدم کیا۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک عظیم ملک بن کر ابھرا اور بہت جلد دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اس کی عزت و توقیر بڑھ گئی۔ ملکی معیشت کا پہیہ چل پڑا۔ جمہوریت کا سفر شروع ہوا لیکن 1947ء میں تقسیم کے وقت ایک ٹولہ تھا۔ کہنے کو مسلمان تھا لیکن غضب کا غاصب ، ابن الوقت، خودغرض، لالچی ، کینہ پرور اور کرپٹ تھا۔ جنہوں نے بھاگنے والے ہندوئوں کی املاک پر قبضہ کیا، جھوٹے کلیم کئے، عہدوں کی بندربانٹ کی، وسائل پر قبضے کئے، زمینیں ہتھیائیں۔ آج یہ مملکت خداداد جس میں ہُن برستا ہے جس میں سینٹ کی ایک ایک سیٹ چالیس چالیس کروڑ میں بکتی ہے۔ جہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر سودے بازیاں ہوتی ہیں اور ایک بھی آدمی اس جعلی جمہوریت میں میرٹ پر نہیں آتا۔ جہاں ہر سال ریونیو اور ٹیکسوں، امدادوں اور چندوں، قرضوں اور رہنوں کی صورت میں کروڑوں ڈالر یا کھربوں روپیہ خزانے میں پہنچ جاتا ہے مگر کسی مجبور، ضرورت مند اور مستحق پر خرچ نہیں ہوتا۔ جہاں ہر روز میرٹ کا خون ہوتا ہے۔ ہر روز انصاف کا قتل عام ہوتا ہے۔نیا پاکستان بن گیا لیکن آج بھی تقسیم ہند کی وہ سسکیاں فضائوں میں گونج رہی ہیں اور پوچھ رہی ہیں کہ اپنے محسنوں کا قرض کب اتارو گے؟؟؟