"بچپن برائے فروخت!"

بچوں کی ہنسی، کھیل کود اور معصومیت ہر معاشرے کا سب سے خوبصورت پہلو ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہی معصوم ہاتھ اسکول کی کتابوں کی بجائے اینٹیں اٹھانے، مشینیں چلانے یا برتن دھونے پر مجبور ہو جائیں تو یہ ایک سنگین انسانی مسئلہ بن جاتا ہے۔ چائلڈ لیبر یعنی بچوں سے مشقت لینا ایک ایسا المیہ ہے جو دنیا کے ہر حصے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ قوانین، تنظیمیں، اور انسانی حقوق کے دعوے اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں بچے آج بھی مزدوری کر رہے ہیں، ان کے خواب ٹوٹ رہے ہیں، اور ان کا بچپن ان کے ہاتھوں سے چھن رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چائلڈ لیبر آج بھی کیوں موجود ہے، اس کے اسباب کیا ہیں، اور اسے ختم کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ چائلڈ لیبر کی سب سے بڑی اور واضح وجہ غربت ہے۔ جب ایک خاندان کو دن میں دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو، تو تعلیم اور کھیل ان کے لیے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ایسے والدین جو خود بمشکل گزارا کرتے ہیں، وہ بچوں کو بھی مزدوری پر بھیج دیتے ہیں تاکہ گھریلو اخراجات میں مدد ہو سکے۔ ان کے لیے یہ سوچنا کہ ان کا بچہ اسکول جائے، کسی خواب سے کم نہیں ہوتا، کیونکہ اسکول جانے کے لیے فیس، کتابیں اور دیگر اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے لیے پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بچہ کچھ کما لے تو کم از کم ان کی زندگی کا بوجھ کچھ کم ہو جائے گا۔ لیکن غربت کے علاوہ بھی کئی عوامل چائلڈ لیبر کو فروغ دیتے ہیں۔ ایک بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ اگر والدین خود پڑھے لکھے نہ ہوں تو انہیں یہ شعور ہی نہیں ہوتا کہ تعلیم ان کے بچوں کے لیے کتنا ضروری ہے۔ وہ مزدوری کو ایک لازمی امر سمجھتے ہیں اور اس کے معاشرتی نقصانات سے ناواقف رہتے ہیں۔ کئی جگہوں پر یہ تصور عام ہے کہ "کام سیکھنا" بچوں کے لیے زیادہ ضروری ہے بنسبت اس کے کہ وہ اسکول میں وقت ضائع کریں۔ نتیجتاً، بچے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی وقت مشقت میں گزار دیتے ہیں اور مستقبل میں بہتر مواقع سے محروم رہتے ہیں۔ قانونی عملداری کی کمی بھی چائلڈ لیبر کے بڑھنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ کئی ممالک میں چائلڈ لیبر کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو لوگ بچوں سے مشقت کرواتے ہیں، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کا امکان بہت کم ہے، اس لیے وہ بلا خوف و خطر یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ بعض صورتوں میں تو قانون بنانے والے ہی اس کے نفاذ میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے معاشرتی اور اقتصادی مفادات اس سے جڑے ہوتے ہیں. چائلڈ لیبر کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اسے بعض معاشرتی روایات کی وجہ سے جائز سمجھا جاتا ہے۔ کچھ خاندان یہ مانتے ہیں کہ بچوں کا کام کرنا ان کے مستقبل کے لیے اچھا ہے، کیونکہ وہ جلدی "مستقل روزگار" حاصل کر سکیں گے۔ کچھ علاقوں میں تو بچوں کو کام سکھانا خاندان کی عزت کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے، اور والدین یہ فخر سے کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی کم عمری میں ہی محنت کرنا سیکھ چکے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے نسل در نسل چائلڈ لیبر جاری رہتی ہے اور اسے ختم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چائلڈ لیبر کا سب سے بڑا نقصان بچوں کی صحت اور ذہنی نشوونما پر پڑتا ہے۔ ایک ایسا بچہ جو دن بھر فیکٹری میں کام کرتا ہے، وہ عام بچوں کی طرح نشوونما نہیں پاتا۔ وہ کھیلنے کودنے اور سیکھنے کے مواقع سے محروم رہتا ہے، جس کا اثر اس کی ذہنی اور جسمانی صحت پر ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف ان بچوں تک محدود نہیں رہتا جو مشقت کرتے ہیں، بلکہ یہ پورے معاشرے پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اگر کوئی ملک یا معاشرہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھے گا تو مستقبل میں اس کی معیشت اور ترقی بھی متاثر ہوگی۔ تعلیم یافتہ نسل کسی بھی ملک کے لیے سرمایہ ہوتی ہے، لیکن جب بچے مزدوری پر مجبور ہوتے ہیں، تو ان کی صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں اور وہ زندگی بھر کم اجرت والی نوکریوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غربت کا یہ دائرہ کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔  
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، حکومتوں کو اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ صرف قوانین بنانے سے کچھ نہیں ہوگا، بلکہ ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنانا ہوگا۔ جو لوگ بچوں سے مشقت کرواتے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے تاکہ یہ عمل روکا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، تعلیم کو ہر بچے کے لیے مفت اور لازمی بنایا جانا چاہیے۔ صرف تعلیمی ادارے قائم کرنا کافی نہیں، بلکہ والدین کو اس بات پر قائل کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کے بچوں کے لیے تعلیم کتنی اہم ہے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ والدین کو بچوں کو اسکول بھیجنے میں مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سماجی شعور اجاگر کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سماجی تنظیمیں چائلڈ لیبر کے خلاف مہم چلائیں تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ یہ ایک جرم ہے۔ بعض اوقات لوگ ناسمجھی میں بچوں سے کام کرواتے ہیں، لیکن اگر انہیں آگاہی دی جائے تو وہ اس عمل سے گریز کر سکتے ہیں۔ کاروباری اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ جو کمپنیاں چائلڈ لیبر کا استعمال کرتی ہیں، ان کے خلاف بائیکاٹ مہم چلائی جائے تاکہ انہیں اس عمل سے باز رکھا جا سکے۔ خریداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی مصنوعات نہ خریدیں جو بچوں کی مشقت سے تیار کی گئی ہوں۔ اگر صارفین یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ صرف اخلاقی اور قانونی طریقے سے بنی ہوئی مصنوعات خریدیں گے، تو اس سے کاروباری ادارے چائلڈ لیبر کے خاتمے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے خلاف جنگ ایک طویل سفر ہے، لیکن اگر ہم سب مل کر کام کریں تو یہ ممکن ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو اس ظلم سے بچا سکیں۔ ہر بچے کا حق ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے، ایک خوشحال اور محفوظ بچپن گزارے، اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا موقع پائے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں بچے اسکول جائیں، کھیلیں، اور ایک روشن مستقبل کی امید رکھیں، یا ایک ایسا معاشرہ جہاں معصوم ہاتھ مشقت کے بوجھ تلے دبے رہیں؟ یہ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے، اور اگر ہم آج اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، تو آنے والی نسلیں بھی اسی اندھیرے میں بھٹکتی رہیں گی۔ ہر بچے کا حق ہے کہ وہ آزاد ہو، تعلیم حاصل کرے، اور ایک روشن مستقبل کی امید رکھے۔ یہ صرف ایک خواب نہیں، بلکہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس خواب کو حقیقت میں بدلیں۔

"چھالے تھے جنہیں دیکھ کے کہنے لگا بچہ
بابا مرے ہاتھوں میں ستارے تو نہیں ہیں"

ای پیپر دی نیشن