دہشت گردی کا خاتمہ ممکن … مگر کیسے؟؟

سیّد روح الامین

    DGPRپنجاب سے معذرت کے ساتھ صحافی حضرات کو ACCRDITATION CARD  ایک سال کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔ 31 دسمبر سے لے کر اگلے سال 31دسمبر تک یہ کارآمد ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب کو نومبر دسمبر میں اس کی تیاری کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اَب 2025 کے تین ماہ بھی گذر چکے ہیں ابھی تک کارڈ نہیں بن سکے۔ اسی کارڈ کی بنیاد پر ہی ریلوے کارڈ جاری ہوتا ہے۔ بہرحال DGPR میں ذمہ داران کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
    وطنِ عزیزکو معرض وجود میں آئے 77سال ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ابھی تک مسائلستان سے نکل نہیں پا رہے۔ ترقی ہم نے خاک کرنی ہے۔ ہم اپنی منزل کا تعیّن ہی نہیں کرسکے۔ بے پناہ دیگر مسائل کے علاوہ دہشت گردی نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہماری افواج اور دیگر سیکیورٹی ادارے شب و روز جانوں کے نذرانے بھی پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب معصوم شہری، اسکولوں میں معصوم بچے، مساجد میں نمازی، یہاں تک کہ اب ٹرینوں میں مسافر بھی محفوظ نہیں رہے۔ جب APSپشاور میں تعلیم کے حصول کے لیے آئے ننھے پھولوں کو خُون میں نہلایا جاتا ہے۔ چند روزقبل ٹرین میں نہتے مسافروں کوگولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ سب وطنِ عزیز پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ہماری ساری حکومتیں اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں۔ بس اجلاس بُلا لیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد پھر سانحہ ہو جاتا ہے۔ ہم اس دہشت گردی کا مستقل طور پر سدباب کیوں نہیں کر سکے؟ ہم دیرپا پالیسیاں آج تک کیوں نہیں بنا پا رہے؟ عوام اور افواج کی مسلسل شہادتوں کے باوجود ہم آج تک اس میں کامیابی حاصل کیوں نہیں کر سکے؟ پہلی تو اس کی بڑی وجہ غربت ، بیروزگاری اور ہماری معیشت کا مستحکم نہ ہونا ہے، دوسری وجہ ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی اور کرپشن ہے، تیسری بڑی وجہ الیکشن کا انعقاد منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ نہ ہونا ہے۔ متنازعہ الیکشن میں جو لوگ جعل سازی سے حکومت میں آتے ہیں چوں کہ اُن کو عوام کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوتی، لہٰذا اُن کا مقصدِ واحد بھی لُوٹ مار اور جائیدادیں بنانا ہی ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ دیہاڑیاں لگانے آتے ہیں۔ ملک کی ترقی و فلاح سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ چوں کہ عوام کی حمایت اُنہیں حاصل ہی نہیں ہوتی لہٰذا پالیسیاں وضع کرنا اُن کا مقصد ہی نہیں ہوتا اور اگر وہ بناتے بھی ہیں، بیکار ہوتی ہیں۔ جب تک عوام کی تائید و حمایت حاصل نہ ہو تب تک یہ سب لاحاصل ہی ہوتا ہے ۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مختلف مقامات پر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہر الیکشن چُرایا جاتا ہے بلکہ ہم نے خود بھی الیکشن چرائے ہیں۔ جب وہ ایک پارٹی کا حصہ تھے۔ اگر ایک بھی منصفانہ مکمل آزادانہ شفاف الیکشن ہو جائے تو جولوگ حکومت میں آئیں گے چوں کہ اُنہیں عوام کی بھی مکمل حمایت حاصل ہو گی ، لہٰذا اُن کے فیصلے نہ صرف ملک و قوم کے لیے بہتر ہوں گے بلکہ ملک ترقی کی منازل بھی سُرعت سے طے کرے گا۔ اگر پانچ سال میں وُہ مناسب اقدامات نہیں کرتے تو اگلی بار عوام خودہی اُنہیں رَد کر دیں گے۔ دہشت گردی جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے منصفانہ الیکشن کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ فیصلے اور پالیسیاں ہمیشہ وہ ہی کامیاب ہوتی ہیں جنہیں عوام کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ اگر برصغیر کے مسلمانوں کا جذبہ شامل حال نہ ہوتا تو قائد اعظم محمد علی جناح کبھی بھی یہ وطنِ عزیز حاصل نہ کر پاتے۔ ایک ایماندار لیڈر کی آواز پر برصغیر کے مسلمانوں نے لبیک کہا اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وطنِ عزیز پاکستان کے حصول کو ممکن بنایا۔ جمہوریت میں سیاہ و سفیدی کے مالک صرف عوام ہی ہوتے ہیں۔ 77سال سے ہمارے ملک میں لاقانونیت، بیروزگاری، غربت، جرائم میں بے پناہ اضافہ، بے چینی، گھٹن اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کیوں ختم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم ترقی کرنے کی بجائے آج پوری دنیا کے مقروض ہیں آخر کیوں؟ معیشت ہماری کیوں زوال پذیر ہے۔ ’’جمہوری‘‘ حکومتیں بھی آتی ہیں۔ پیسہ کہاں جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے بغیر اب ہمارا گذارا ہی ممکن نہیں۔ وجہ ایک ہی ہے، حکومتیں عوامی حمایت کے بغیر بنتی ہیں۔ اُن کا مقصد ہی مال بنانا ہوتا ہے۔ کون سال ملک ایسا ہے جہاں سب مادر پدر آزاد ہوں، احتساب نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو۔ مہذب ممالک میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر حکمران استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ سرعام اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جائز ناجائز طریقے سے اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا ہے۔ بس یہی وجہ ہے کوئی ایک بھی خاطر خواہ منصوبہ آج تک نہ بنایا جا سکا ۔ پاک افواج کی قربانیوں سے انکار ممکن ہی نہیں۔ وہ بھی ہم میں سے ہیں۔ ملک کی سرحدو ں کی حفاظت کا مسئلہ ہو، دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنا ہو، زلزلہ و سیلاب کی صورتِ حال ہو ہر مشکل وقت میں پاک افواج قوم کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ مگر ان نااہل اور لٹیرے سیاست دانوں نے اپے اپنے مفادات کے لیے پاک افواج کو بھی متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ 
    ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے۔ 77سال سے کشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہا ہے جب بھی اُسے موقع ملے بلوچستان سمیت پورے ملک میں خوفناک دہشت گردی کرانے سے بھی باز نہیں آتا۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران دِن کے وقت بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم اور تجارت کے خواب دیکھنے میں لگے رہتے ہیں۔ 8جولائی 2006ء کو میرے اُستاد و مرشدِ صحافت بابائے صحافت جناب مجید نظامیؒ نے سپریم کورٹ آف پاکستان بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ نظریۂ ضرورت کو دفن کر دیا جائے اور یہ کہ :
    ’’ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے جس نے شروع دِن سے ہمیں تسلیم اور قبول نہیں کیا۔ وہ روزِ اوّل سے دوبارہ اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس کے معاملے میں محتاط رہنا چاہیے۔ جو لوگ بھارت کے ساتھ پیارکی پینگیں ڈالنا چاہتے ہیں انھیں یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہمیں امریکہ کا غلام تو بنا ہی دیا گیا ہے مگر اب ہمیں بھارت کاغلام نہ بنایا جائے … اور پاکستان کو آزاد خودمختار اسلامی مملکت بنانا چاہیے۔‘‘
    یقین جانیے جب تک بحیثیت قوم ہم یکجا اور متحد نہیں ہوں گے اپنی حکومتوں اور اداروں کے ساتھ یک جان ہو کر کھڑے نہیں ہوں گے۔ ہم دہشت گردی تو کیا چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی قابو نہیں پا سکیں گے۔ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے صرف عام شہریوں پر ٹیکسز کے انباز لگانا ہی ضروری نہیں۔ کرپشن کے دروازے بھی بند کرنا ہوں گے۔ غیر جابندارانہ احتساب کا قانون وضع کرنا ہو گا۔ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ عام آدمی سے کئی اقسام کے ٹیکس لیے جاتے ہیں اور حکومتی ارکان کو پچاس کروڑ تک کرپشن کی معافی کا باقاعدہ قانون ہے۔ ایسے غیر منصفانہ فیصلوں سے عوام اور حکومت میں فاصلے بڑھتے ہیں۔ یقین اور اعتماد کا فقدان ہوتا ہے۔ ایک طرف سرکاری ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں میں کمی کرنے کا سوچا جارہا ہے اور دوسری طرف حکومتی ارکان کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جائے۔ یقینا ایک باقاعدہ منتخب جمہوری حکومت ایسے ظالمانہ فیصلے نہیں کر سکتی۔ بہرحال دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کے لیے درج بالا اقدامات کرنا ہوں گا اور دیرپا و مستقل پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ آزادعدلیہ، آزاد پریس جب تک نہیں ہو گا غیر یقینی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ مختصر یہ کہ ملک کا مستقبل اس وقت محفوظ ہو گا جب ملک میں آزادانہ انتخابات ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن