"مقصدِ روزہ"


سید محمد علی 
syedhamdani012@gmail.com
رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے خاص رحمتوں اور برکتوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ مہینہ صبر، شکر، قربانی اور دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے۔ روزہ رکھنا نہ صرف جسمانی طور پر بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کا نام ہے بلکہ اس کا اصل مقصد روحانی پاکیزگی، احساسِ ہمدردی اور دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا ہے۔ مگر جب افطار کا وقت آتا ہے تو معاشرتی ناہمواریوں کا ایک منظر سامنے آتا ہے۔ افطار کے لمحات کا تصور کرتے ہی ذہن میں کھجور، شربت، پھل، پکوڑے، سموسے اور انواع و اقسام کے کھانوں کا منظر ابھرتا ہے۔ ہمارے دسترخوان رنگ برنگے کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں، جبکہ انہی لمحوں میں بہت سے ایسے گھرانے بھی ہیں جن کا افطار محض پانی کے چند گھونٹوں یا خشک روٹی کے چند ٹکڑوں تک محدود ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن کا روزہ تو کھل جاتا ہے، مگر وہ اس آسائش سے محروم ہوتے ہیں جسے ہم اپنی روزمرہ زندگی کا معمول سمجھتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ رمضان صرف اپنے پیٹ بھرنے کا نام نہیں بلکہ دوسروں کا پیٹ بھرنے کا بھی مہینہ ہے۔ روزے کا ایک اہم فلسفہ یہ ہے کہ انسان اپنی بھوک اور پیاس کے ذریعے ان لوگوں کے حالات کو محسوس کرے جو سارا سال اسی طرح فاقوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ جب ہم صبح سے شام تک بھوک برداشت کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ کس کرب سے گزرتے ہیں جنہیں ہر روز اس حالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ احساس محض روزے کے دوران محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہمیں اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا لینا چاہیے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے زکوٰ? اور صدقات کے ذریعے ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ رمضان المبارک میں اس عمل کا خاص طور پر زیادہ اجر بتایا گیا ہے تاکہ معاشرے میں موجود محروم طبقہ بھی خوشی و سکون کا احساس کر سکے۔ صدقہ فطر اور دیگر امدادی کام اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ ہمارا دین ہمیں صرف اپنی ذات تک محدود رہنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ہمارے مال میں دوسروں کا حق بھی شامل ہے۔ جب ہم اپنے گھروں میں افطار کے لیے انواع و اقسام کے پکوان تیار کرتے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے پڑوس میں ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جن کے پاس سحر و افطار کے لیے کچھ بھی میسر نہیں۔ یہ احساس ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ہمارے معمولی خرچ سے کسی کا دستر خوان سج سکتا ہے، کسی کا پیٹ بھر سکتا ہے، اور کسی کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ غربت صرف رمضان المبارک تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔ جو لوگ رمضان میں لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرتے ہیں، انہیں اس عمل کو پورے سال کے لیے اپنا شعار بنانا چاہیے۔ بھوک اور غربت کا درد کسی ایک مہینے کا محتاج نہیں بلکہ یہ ایک ایسا کرب ہے جو سال کے ہر دن میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ صدقہ و خیرات دینے کے لیے مالدار ہونا ضروری نہیں۔ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کی مدد کر سکتا ہے۔ کسی کے لیے افطار کا کھانا بھیجنا، کسی کے گھر میں سحر کے لیے کچھ سامان فراہم کرنا، یا کسی ضرورت مند بچے کو کپڑے یا جوتے لے کر دینا، یہ سب نیکیاں ہیں جو معاشرے میں خوشحالی اور محبت کو فروغ دیتی ہیں۔ ایسا کرنا نہ صرف ہماری دینی ذمہ داری ہے بلکہ اخلاقی فرض بھی ہے۔ ہم اگر اپنی زندگی میں دوسروں کا درد محسوس کریں گے تو ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر بھی بڑھے گا اور ہم زیادہ عاجزی اور انکساری اختیار کریں گے۔ رمضان کا پیغام یہی ہے کہ ہم اپنے اندر رحم دلی، سخاوت اور ہمدردی کے جذبات کو پروان چڑھائیں اور دوسروں کی مدد کو اپنا مقصد بنا لیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ "اماں جی میں نے روزہ کے ساتھ افطار کرنا ہے"، لیکن یہ جملہ ان غریب لوگوں کے لیے ایک دردناک حقیقت بن جاتا ہے جو سارا دن بھوکے رہنے کے بعد بھی کچھ کھانے سے محروم رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے لوگوں کے لیے دستِ تعاون بڑھائیں تاکہ ان کی محرومی کا یہ کرب کسی حد تک کم ہو سکے۔ اگر ہم اپنے روزمرہ کے اخراجات پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ بہت سے ایسے غیر ضروری اخراجات ہیں جنہیں اگر بچا لیا جائے تو ہم کئی ضرورت مند افراد کی مدد کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مہنگی چائے کے کپ کے پیسوں سے کسی غریب کا کھانا خریدا جا سکتا ہے، ایک غیر ضروری چیز کی خریداری روک کر کسی یتیم کے لیے کپڑے کا انتظام کیا جا سکتا ہے، اور اپنی فضول خرچی میں کمی لا کر کسی بیوہ کے گھر کا راشن پورا کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام نہ صرف رمضان المبارک میں کرنا چاہیے بلکہ سال کے ہر مہینے میں اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ اگر ہم اپنی عادات میں یہ تبدیلی لے آئیں تو نہ صرف ہم اپنے دین کی اصل روح پر عمل کر رہے ہوں گے بلکہ معاشرتی برابری کو بھی فروغ دے سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جن نعمتوں سے نوازا ہے وہ محض ہمارے لیے نہیں بلکہ ان میں دوسروں کا حصہ بھی شامل ہے۔ ہمیں ان نعمتوں کو بانٹ کر حقیقی شکر کا اظہار کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے یہ سبق سیکھ لیا تو ہمارے معاشرے سے بھوک، غربت اور محرومی جیسے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خوشیوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کے چہروں پر خوشی لانے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن