اصغر علی شاد
امر اجالا
shad_asghar@yahoo.com
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 18مارچ کو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیر اعظم اور آرمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہٰذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لئے کوئی چیز نہیں اور پاکستان کے تحفظ کیلئے یک زبان ہو کر اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنایا جائے گا۔یاد رہے کہ اسی تناظر میں پاک وزارت خا رجہ نے مودی کے گمراہ کن بیان کو بھی سختی سے مسترد کر دیا۔
غیر جانبدار سفارتی اور معاشرتی حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اگرچہ پاکستان کی تمام حکومتوں کی ہمیشہ کوشش اور خواہش رہی ہے کہ اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ برابری اور عدم مداخلت کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کشمیر سمیت سبھی معاملات حل کیے جائیں مگر بدقسمتی سے اس بھارت کی صورت میں ایسا ہمسایہ میسر آیا جس نے ہمیشہ منفی روز اپنائی اور ان دنوں بھی را،بی ایل اے اور ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر دہشتگردی کو فروغ دینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور اس تمام تناظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اس وقت دہشت گردی اور داخلی سیکیورٹی کے شدید چیلنجز سے نبرد آزما ہے اور چند روز قبل جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ جیسے واقعات اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ شائد روایتی سیکیورٹی اقدامات اب ناکافی ثابت ہو رہے ہیں لہذا ضرورت اب اس امر کی ہے کہ دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات اٹھائے جائیں۔ مبصرین کے مطابق کسے معلوم نہیں کہ ملک دو بڑے خطرات سے دوچار ہے: بلوچ علیحدگی پسند تحریک اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ازسرِ نو متحرک دہشت گردی کی مہم۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک فوری، جامع اور مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو نہ صرف عسکری اقدامات پر مبنی ہو بلکہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی پہلوؤں کا بھی احاطہ کرے۔یاد ہے کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے سانحے کے بعد قومی ایکشن پلان (NAP) تشکیل دیا گیا تھا تاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک منظم اور جامع فریم ورک مہیا کیا جا سکے۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف عسکری کارروائیوں کو منظم کیا گیا بلکہ شدت پسندی کے بنیادی اسباب جیسے انتہا پسندی، نفرت انگیز بیانیے اور مدارس کی اصلاحات پر بھی زور دیا گیا تھا۔ بعد ازاں، 2021 میں حکومت نے اس پلان پر نظرثانی کی اور اس میں نان-کائنیٹک اقدامات جیسے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصلاحات کو بھی شامل کیا تھا۔ تاہم، زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ اس منصوبے پر مکمل اور مؤثر عمل عمل درآمد اب تک نہیں ہو سکا۔اس امر میں کوئی شبہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے تحت کئی دہشت گرد نیٹ ورکس کو تباہ کیا گیا، جبکہ فاٹا کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی۔ علاوہ ازیں بلوچستان میں بھی شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائیاں کی گئیں، جن سے دہشت گردوں کی سرگرمیاں کسی حد تک محدود ہوئیں تاہم، عسکری کارروائیوں کے باوجود شدت پسندی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا، کیونکہ دہشت گرد گروہ مسلسل نئی حکمت عملیوں کے تحت دوبارہ متحرک ہو رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق محض فوجی طاقت پر انحصار قلیل مدتی حل فراہم کر سکتا ہے، لیکن مستقل اور پائیدار امن کے لیے غیر عسکری اقدامات ناگزیر ہیں۔ بدقسمتی سے، قومی ایکشن پلان کے ان پہلوؤں کو مسلسل نظر انداز کیا جا تا رہا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسے عناصر کے ساتھ مذاکرات کیے جانے چاہیے جو تشدد ترک کرنے اور قومی دھارے میں شامل ہونے پر آمادہ ہوں۔ لیکن یہ عمل ابھی تک مؤثر انداز میں شروع نہیں کیا جا سکا۔علاوہ ازیں غربت اور پسماندگی شدت پسندی کو فروغ دینے والے بنیادی عوامل ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں بنیادی سہولیات، تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی شدت پسندی کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ اگر ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے مؤثر انداز میں نافذ کیے جائیں تو شدت پسندی کی جڑیں کمزور کی جا سکتی ہیں۔یاد رہے کہ مدارس کے نظام میں اصلاحات اور جدید تعلیم کا فروغ بھی قومی ایکشن پلان کا ایک اہم جزو تھا، لیکن اس پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی لہذا انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے مدارس کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ شدت پسند نظریات اور نفرت انگیز بیانیے کے خلاف مؤثر کارروائی کی ضرورت ہے، جو اب بھی سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے پھیل رہے ہیں اور تا حال اس ضمن میں حکومت کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کو ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی اور اس ضمن میں بلوچستان میں بداعتمادی ختم کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبوں، سیاسی شمولیت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اسی طرح، خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں تاکہ مقامی نوجوانوں کو دہشت گرد گروہوں کے اثر سے دور رکھا جا سکے۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی ایکشن پلان کو مکمل طور پر بحال اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔پالیسیوں کے نفاذ میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان مربوط تعاون وقت کی ضرورت ہے اور صرف ان گروہوں سے مذاکرات کیے جائیں جو ریاستی خودمختاری اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے امن عمل کا حصہ بننے پر راضی ہوں۔ اس کے علاوہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے تعلیم اور ترقی کے منصوبوں کو مؤثر بنایا جائے تاکہ نوجوان نسل کو دہشت گرد تنظیموں کے اثر سے بچایا جا سکے اورملک کو اپنی خارجہ پالیسی میں ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جو دہشت گردی کے خلاف عالمی تعاون کو یقینی بنائے۔ اس تما م صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر قومی ایکشن پلان کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے تو یہ پاکستان میں امن اور استحکام کی بحالی کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصلاحات کو بھی سنجیدگی سے اپنایا جائے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور دیگر متاثرہ علاقوں میں دیرپا امن کے لیے ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کو اپنی ذمہ داریوں کو پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔ قومی ایکشن پلان پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک امید ہے، لیکن یہ امید اسی وقت حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے جب اس پر عملی اقدامات کیے جائیں۔