سول نافرمانی کو انگریزی میں Civil Disobedience کہا جاتا ہے۔ یہ عمل احتجاجی طور پر اپنے مطالبات منوانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اکثر سول نافرمانی کی تحریک حکومتوں کے خلاف ہوتی ہے۔ سول نافرمانی کی تحریک میں عام طور پر حکومت کو ہر طرح کے محصولات جمع کرانے سے انکار کیا جاتا ہے۔ جس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں جیسے بجلی، پانی، گیس اور ٹیلیفون وغیرہ کے بل اور ہر قسم کے محصولات جمع کرانے سے انکار کرنا۔ محصولات کی رقم سرکاری خزانے میں جمع نہ کرانا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ محصولات کی ادائیگی نہ ہو تو حکومتوں کے لیے امورِ مملکت چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیوالیہ پن جیسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ سول نافرمانی اکثر اجتماعی صورت میں کی جاتی ہے۔ اس طرح حکومت کو کسی جماعت کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک کے ذریعے معتوب اور مطالبات ماننے پرمجبور کیا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے اپنے مطالبات کے حق میں مارچ کرنا، پارلیمنٹ کے ممبران کو خط لکھنا، مطالبات کے حق میں کسی قرار دادپر دستخط شدہ مہم چلانا کسی تبدیلی کے لئے کافی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مطالبات کے حق میں سول نافرمانی کی تحریک شرو ع کی جاتی ہے۔ تحریک کامیاب ہو جائے تو کسی بھی حکومت کو گرانا مشکل نہیں رہتا۔
امریکہ سمیت یورپین اور عرب ممالک میں دہائیوں سے لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں اقامت رکھتے ہیں جو ترسیل زر کی مد میں بینکنگ ذرائع سے اربوں ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں۔ ترسیل زر رُک جائے تو اس سے تارکین وطن کی پاکستان میں مقیم فیملیز کا نقصان تو ہوتا ہی ہے، ملک کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ تاہم بانی پی ٹی آئی نے حکومت مخالف احتجاجی تحریکوں میں ناکامی کے بعد نیا حربہ سول نافرمانی کا اختیار کیا۔ تارکین وطن سے اپیل کی گئی کہ ترسیل زر کو رُوک دیں تاکہ پاکستان میں مالی و معاشی بحران پیدا ہو۔ اور بالآخر یہ بحران حکومت وقت کو لے ڈوبے۔
یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانی، پاکستان کا چہرہ ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے بارے میں عالمی تاثر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ ہر سطح پر تحفظ بھی کیا ہے۔ تاہم ان تارکین وطن میں کچھ مفاد پرست، تنگ نظر سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے ایجنٹ بھی موجود ہیں۔ جو ان کے آلۂ کار بن کر پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ان افراد نے اپنے یو ٹیوب چینل بھی بنا رکھے ہیں۔ جن کے ذریعے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی تحریک چلائی جاتی ہے اور منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جس سے پاکستانی تارکین وطن میں کافی تقسیم پیدا ہوئی ہے۔ اکثریت ایسی حرکتوں یا ایسی مہم جوئی کو پسند نہیں کرتی۔ لیکن ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس طرح کی مذموم سرگرمیوں کے حامی ہیں۔ تاہم اس طرح کے منفی پروپیگنڈے اور مہم جوئی سے عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان کی ساکھ ضرور مجروح ہوتی ہے۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے، جس قسم کے معاشی چیلنجز کا اُسے سامنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے عالم میں باہمی احترام اور افہام و تفہیم کو فروغ دیا جائے۔ پی ٹی آئی نے حالیہ دنوں میں سول نافرمانی کی جو کال دی۔ خیال تھا کہ تارکین وطن اس ’’کال‘‘ کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور لیں گے۔ ترسیل زر کا سلسلہ بیرون ممالک سے رک جائے گا جہاں بھی پاکستانی ہیں۔ وہ سول نافرمانی کی اس کال کو اس قدر پذیرائی بخشیں گے کہ حکومت کے پائوں لڑکھڑا جائیں گے۔ اُس کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ سمجھوتے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ سول نافرمانی کی یہ تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئی اور اپنے اختتام کی طرف بڑھ گئی۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں حکومت او رپی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کے بھی دو دور ہو چکے ہیں۔ جس میں گفت و شنید ہوئی۔ سیاسی ٹمپریچر کم کرنے کی بات کی گئی تاکہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آ سکے۔ احتساب عدالت سے بانی پی ٹی آئی کو 190ملین پونڈ کیس میں 14سال کی سزا ملنے کے بعد بھی پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کا کہنا ہے کہ حکومت اور اُن کے مابین ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار نہیں ہوں گے۔ بانی کی یہی واضح ہدایات ہیں کہ سزا کے باوجود مذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے۔
خوشی اور حیرت کی بات ہے کہ جو جماعت (ن لیگ) کبھی چور اور ڈاکو تھی۔ جس کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارہ نہیں تھا۔ اب انہی سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے حکومت کے سامنے دو ہی مطالبات رکھے ہیں۔ 9مئی اور 26نومبر کے واقعات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کا قیام۔ نیز جیلوں سے پی ٹی آئی کے اسیر رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی۔ پی ٹی آئی انہیں سیاسی قیدی قرار دے رہی ہے جبکہ حکومتی وزراء کا کہنا ہے پی ٹی آئی کے جو کارکن یا رہنما جیلوں میں ہیں انہیں سیاسی قیدی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ انہیں فوجداری ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’ایکس‘‘ پر پچھلے دنوں سول نافرمانی کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کی ایک پوسٹ نظر آئی جس میں وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ’’ترسیل زر کے بائیکاٹ ‘‘کا مشورہ دے رہے تھے۔ لیکن دَلچسپ اور حیران کن بات ہے کہ تارکین وطن نے بانی کی اس اپیل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ معمول کے مطابق ترسیل زر کا سلسلہ جاری رہا۔ کسی ایک ملک سے بھی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ وہاں مقیم تارکین وطن نے ترسیل زر میں کوئی کوتاہی کی ہو یا پاکستان میں اپنی فیملیز کو پیسے نہ بھیجے ہوں۔ سول نافرمانی کے مشن میں ناکام ہونے کے بعد اب پی ٹی آئی رہنمائوں کو کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا کہ مستقبل کی اپنی سیاست کو کیسے زندہ رکھیں؟ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق تارکین وطن نے پچھلے دو ہفتوں میں اربوں ڈالر پاکستان بھیجے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی سول فرمانی کی کال بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔ خود اُن کی جماعت کے سپورٹرز نے بھی بانی کی اپیل پر کوئی توجہ نہیں دی اور اُسے اس قابل نہیں سمجھا کہ عملدرآمد کیا جاتا۔
بانی پی ٹی آئی اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 190ملین پونڈ کیس میں لمبی سزائو ںکے بعد نظر آتاہے کہ بانی کے لیے سیاست کے راستے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کو قوی امید ہے، پی ٹی آئی وکلاء اور رہنما بھی بار بار اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ سزائوں کے خلاف اپیل جیسے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ہوئی، دو تین تاریخوں میں ہی کالعدم قرار دے دی جائے گی لیکن قانون سے آشنا افراد کا کہنا ہے،190ملین پونڈ کا کا فیصلہ اتنا جاندار اور مضبوط ہے کہ ہائی کورٹ احتساب عدالت کے اس فیصلے کو ناصرف برقرار رکھے گی بلکہ پی ٹی آئی وکلاء کو اس محاذ پر بھی شرمندگی اور ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔
دوسروں کو چور چور کہنے والا آج خود چوروں کی صف میں کھڑا ہے۔ یقینا پی ٹی آئی کو یہ اچھا نہیں لگ رہا ہو گا۔ لیکن مکافاتِ عمل اسی کو کہتے ہیں کہ انسان اپنے بھی گریبان میں جھانکتا رہے۔ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز شخصیات پر یہ زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمیشہ اپنا احتساب خود کریں۔ سیاستدانوں کو تو زیادہ محتاط رہنا چاہیے کہ بدنامی حصے میں آ جائے تو کچھ باقی نہیں بچتا۔ پی ٹی آئی نے 25سال تک قانون کی بالا دستی کی بات کی ان کی اپنی جماعت کے نام میں ’’انصاف‘‘ شامل ہے۔ لہٰذا ججوں پر کسی قسم کی الزام تراشی اور انگلی اٹھانے کی بجائے اپنے آپ کو انصاف کے لیے نظام عدل کے سپرد کر دیں۔ پی ٹی آئی کے پاس سینئر وکلاء کی منجھی ہوئی ٹیم ہے جنہیں بانی کی بے گناہی کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں ٹھوس دلائل، شواہد اور ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔ پی ٹی آئی کوچاہیے ملک کو معاشی استحکام کی طرف جانے دیں۔ سول نافرمانی جیسے مکروہ فعل اور احتجاجوں کا سلسلہ ترک کر دیں۔ اس میں ملک کی اور خود اُن کی بھی اپنی بھلائی ہے ورنہ تاریخ انہیں معاف کرے گی، نہ قوم۔