عقل اور جذبات انسان کے بنیادی جوہر ہیں۔ ان دونوں صفات کا امتزاج اور توازن ہی انسان کو انسانی منصب عطا کرتا ہے۔ عقل کے جزوی عناصر میں سے ذہانت اپنی تجزیے ،فیصلہ سازی اور یاداشت جیسی خصوصیات کی وجہ سے اور روزمرہ زندگی میں بے حد اہم ہے۔ جذبات کو عام طور پر عقل کے متصادم سمجھا جاتا ہے مگر جذباتی ذہانت سماجی تعلقات قائم کرنے، اخلاقی فیصلے کرنے، معاشرتی ہم آہنگی اور انفرادی سطح پر فرد کی ذہنی صحت اور نفسیاتی بہبود کے لیے لازمی ہے۔ غیر فعال دماغ وقت کے ساتھ ساتھ ناکارہ اور کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں ڈیجیٹل انقلاب اور خاص طور جنریٹو اے آئی نے انسانی زندگی کے بہت سے معاملات کو آسان کر دیا ہے مگر عام آدمی کے لیے بہت سے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ انسان کی بنیادی صفات ڈیجیٹل ترقی کی اس لہر سے بری طرح متاثر ہیں۔ ذہانت کا مفہوم وسیع اور اس کے دائرہ کار میں متنوع صلاحیتیں شامل ہیں۔ذہنی اور جذباتی سطح کے چند پہلوؤں کی جانچ کے لیے کئی طریقے موجود ہیں مگر ذہنی درجہ کی پیمائش معیاری پیمانے آئی کیو اور جذباتی ذہانت کی جانچ کے لیے ای کیو کا استعمال زیادہ رائج اور معروف ہے۔
یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ مختلف ذہنی مشقوں کے ذریعے دماغ کو چوکس اور متحرک رکھا جا سکتا ہے جیسے مطالعہ ، غور و فکر، اور مختلف تخلیقی سرگرمیاں وغیرہ۔فلائن ایفیکٹ کے مطابق 20ویں صدی کے دوران سماجی، تعلیمی، اور معاشی ترقی نے ذہانت کو تقویت دی اور مجموعی آئی کیو درجات میں مستقل اضافہ ہوا۔اسی دورانیے میں جذباتی ذہانت بھی مسلسل بہتری کی جانب گامزن نظر آئی۔صنعتی ترقی ، شہری زندگی اور دیگر کئی عوامل کے تحت انسان کا سامنا پیچیدہ سماجی روابط سے ہوا۔جس کی وجہ سے جذباتی مہارتوں کی نشوونما کو مزید تقویت ملی۔ اکیسویں صدی کے آ غاز سے ہی انسان کی ذہنی اور جذباتی کارکردگی میں بگاڑ کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں خصوصیات میں کمی کے رجحان کو متعدد اسباب سے منسلک کیا جاتا ہے مگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور حالیہ برسوں میں مصنوعی ذہانت پر بڑھتا انحصار اسکی اہم وجہ ہے۔ اس حوالے سے زیادہ تر تحقیق برطانیہ ، امریکہ ، آسٹریلیا، سویڈن اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک میں کی گئی جبکہ ترقی پذیر ممالک کے واضح تحقیقی نتائج موجود نہیں تاہم یہاں بھی ذہنی و جذباتی نشوونما میں تنزلی کی علامات واضح دکھائی دیتی ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ترقی خاص طور پر ایک اہم ڈیوائس یعنی سمارٹ فون نے متعدد ذہنی مشقت اپنے ذمہ لے لی ہے جیسے روزمرہ حِساب کتاب ، فون نمبر یاد رکھنا ، راستے یاد رکھنا وغیرہ یعنی یومیہ معمول میں حافظے پر زور ڈالنا تقریبانہ ہونے کے برابر رہ گیاہے۔ڈیجیٹل آلات پر زیادہ وقت گزارنا اور روزمرہ امور کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں مصنوعی ذہانت پر تکیہ کرنے سے توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت اور تجزیاتی سوچ میں کمی اور انسانی دماغ کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انسان کی ذہنی مشقت کو کم سے کم کر نے کے لیے طرح طرح کے اے آئی ٹولز دستیاب ہیں جیسے تحریری مددگار ، معلومات کی تلاش اور تجزیہ ، مختلف زبانوں میں ترجمہ وغیرہ۔ دماغ اور کمپیوٹر کے درمیان براہِ راست کنکشن فراہم کرنے کے لیے ایلون مسک کی کمپنی نیورا لنک کی دماغی چپ کے کامیاب امپلانٹ گذشتہ سال کیے گئے۔ ابتدائی طور پر یہ ٹیکنالوجی طبی فوائد حاصل کرنے اور بحالی صحت کے لیے استعمال کی گئی۔ اس چپ کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ساتھ دماغی سگنلز کا تبادلہ ممکن ہوتا ہے۔ مگر خدشات ہیں کہ انسانی ذہن اور مشین کا یہ انضمام مستقبل میں کئی حیاتیاتی اور سماجی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
جذباتی سہارا انسان کی فطرت ہے۔ اپنے جذبات و احساسات کو سمجھنا اور ان کی بنیاد پر ہونے والے ردعمل پر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا، دوسروں کے خیالات کو سمجھنا اور دیگر کئی سماجی معاملات میں توازن قائم کرنا جدید معاشرے میں کامیاب تعامل کے لیے ناگزیر ہے اور اسے جذباتی ذہانت کہا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل رابطوں نے جذباتی تعلقات کی گہرائی اور حساسیت کو بہت کو متاثر کیا۔ ٹیکنالوجی اور خاص طور پر سوشل میڈیا نے انسان کو حقیقی دنیا میں تنہا کر دیا اور اب اس تنہائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل بھی اے آئی نظام پر مبنی مختلف چیٹ بوٹس کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے جو ذہنی صحت کی بہتری، جذباتی سپورٹ، اور تفریح کے لیے بنائے گئے ہیں۔
ووئی بوٹ ، ریپلیکا ، کوکی ،اینیما ، وائسا اور دیگر کئی معاون اور حمایتی چیٹ بوٹس مشین لرننگ اور نیچرل لینگویج پروسیسنگ کے ذریعے انسانی جذبات کو سمجھتے ہوئے تجزیہ کر کے انہیں ذہنی دباؤ اور اضطراب جیسے مسائل سے نکلنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
جدت اور ترقی کا مفہوم ایک بے حد ذہین اور پھر ایک بالکل عام آدمی کے لئے مختلف ہو گا اور دونوں پر اس کیاثرات بھی جدا ہونگے ایک عام آدمی جس کی سوچ اور نظر محدود ہو وہ جدید ایجادات کو فقط ایک سہولت کے طور پر دیکھے گا۔ مصنوعی ذہانت کی تعریف اس کی اپنی زبانی یہ ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی جو کمپیوٹرز اور مشینوں کو انسانی دماغ کی طرح سوچنے، سیکھنے، اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اس کا مقصد انسانوں کی طرح ذہنی سرگرمیاں انجام دینے والے سسٹمز تیار کرنا ہے۔ ہر دریافت ایک نئے طرزِ زندگی کی علامت ہے اور وقت کے ساتھ چلنا ہی انسانی بقا کا بنیادی اصول ہے۔جدت اور ترقی ہمیشہ انسان کو متاثر کرتی آئی ہے ۔ نئی ایجادات انسانی ذہانت کا ہی مظہر ہیں پھر چاہے وہ ابتدائی کیلکولیٹر ہوں، کمپیوٹر،یا مصنوعی ذہانت ۔ ان کا مقصد انسانی زندگی کو سہل بنانا ہے۔مگر قابل ِ فکر بات یہ ہے کہ تمام حیران کن اور کار آمد ایجادات بلاشبہ ہمیں سہولیات فراہم کر رہی ہیں مگر ساتھ ہی تخلیقی فکری صلاحیتوں کو بھی حد درجہ متاثر کر رہی ہیں۔ کیایہ انسان کی فطری جستجو اور ذہنی سر گرمی کی جگہ لے رہی ہیں۔بہت سے خدشات میں سے ایک تشویش یہ بھی ہے کہ مصنوعی ذہانت، جو ہماری جگہ سوچ سکتی ہیکیا ہمیں سوچنے کی ضرورت سے ہی آزاد کرنے والی ہے؟ اور کیا ہم اسی کی صورت میں ڈھلتے چلے جا رہے ہیں ؟ کیا حقیقی انسانی ذہانت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور مصنوعی ذہانت دن بدن طاقت ور ہو رہی ہے اور ہم سہولت اور ترقی کے اس سفر میں اپنی انسانیت کو کہاں تک محفوظ رکھ پائیں گے ؟