پاکستان اور افغانستان کا فیصلوں پر جلد عمل پر اتفاق

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اپنے دورے سے واپسی پر افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ اسحاق ڈار نے دورہ کابل کے دوران پرتپاک میزبانی پر افغان قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے مذاکرات کے نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا، اور فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق کیا۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے باعث کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹس میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی طالبان حکومت کی سرپرستی میں پاکستان میں مداخلت کر رہی ہے۔پاکستان کے پاس اس کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ فتنہ الخوارج کے دہشت گرد امریکی فوج کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔جس سے طالبان حکومت کو کئی مرتبہ آگاہ کیا گیا۔اسی وجہ سے پاکستان نے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے بھی کئے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ٹی ٹی پی کی سرپرستی چھوڑنے کے حوالے سے طالبان عبوری حکومت کے ساتھ رابطے بھی کیے گئے۔ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ افغانستان ایسے ہی رابطوں کی ایک کڑی ہے۔ اسحاق ڈار اچھے جذبات لے کر افغانستان گئے تھے جس کا جواب بھی افغان حکومت کی طرف سے اچھے جذبات کے ساتھ دیا گیا۔جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی برف پگھلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اسحٰق ڈار کی افغان حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاق کیا گیا۔اب دورے کے بعد اسحاق ڈار کی طرف سے ایک مرتبہ پھر افغان حکام کے ساتھ رابطہ کیا گیا۔جس میں ملاقاتوں کے دوران ہونے والے فیصلوں پر جلد عمل درآمد پر اتفاق کیا گیا ہے۔یہ اطمینان بخش پیش رفت ہے۔عالمی سطح پر افغانستان کے بھارت کی پراکسی ہونے کا تاثر پایا جاتا ہے۔بھارت ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی بھی سرپرستی کرتا ہے۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے خطے کا امن بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روک دیتا ہے تو خطے میں امن کی بحالی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی امن قائم ہو سکتا ہے جو یقیناً علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن