پاکستان کو مل کر ہارڈ سٹیٹ بنائیں (3)

طلسم ہْوشربا کا ہیرو شہزادہ اسد ایک موقع پر اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ ’’فلاں مقام‘‘ پر بڑی احتیاط سے آگے بڑھنا۔ کوئی تمہیں باتوں سے لْبھا نہ لے ورنہ انسان نہیں رہو گے اور پتھر میں تبدیل ہو جاؤ گے‘‘ مصنوعی ذہانت کے ایک ماہر ’’اے کروزیل‘‘جنہیں آج کا شہزادہ اسد کہا جا سکتا ہے اپنی کتاب The Singularity is Nearer میں لکھتے ہیں کہ وہ ’’مقام‘‘ آنے والا ہے جب انسان اور مصنوعی ذہانت اپنی شناخت کھو کر ایک جیسے ہونے والے ہیں‘‘
آئیے مارک اونیل کی اْچھوتی کتاب ’’ ”To be a Machine“‘‘ کا بھی جائزہ لیں وہ بھی لگ بھگ یہی بات کچھ اس ڈھنگ سے کر رہے ہیں کہ ’’ٹرانس ہومن ازم‘‘ تیزی سے فروغ پاتا چلا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے باعث ہماری زندگیوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں جو بیک وقت دل و دماغ دونوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی چلی جا رہی ہیں۔ 
اگلی پچھلی بیان کردہ زبردست تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا جس نازک شیشہ گری کے سفر پر رواں دواں ہے اس کیلئے تو ہم پاکستانیوں کے پاس کوئی ’’زاد راہ‘‘ ہی نہیں۔ روز مرہ زندگی میں لمنافقت، مکروفریب ، دھوکہ دہی، اقرباپروری اور انصاف کا قتل ہمارا اْوڑھنا بچھونا بن چکا ہے اور ان معاملات پر ہمارا اتفاق ایسا پختہ ہے کہ نیچے سے لیکر اوپر تک ہم ایک ہی ’’صف‘‘ میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔
جدید سوچ سے ہم اس طرح کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں جس طرح کوئی مریض اپنے لئے نقصان دہ اشیاء سے پرہیز کرتا ہے۔ جدیدیت، معیاری تعلیم، میرٹ اور رواداری ہم سے کوسوں دور بھاگ رہی ہیں۔ ’’ٹرانس ہومن ازم‘‘ کے اس زمانے میں ہم آج بھی دقیانوسی ’’وڈیرہ شاہی‘‘ نظام کا شکار ہیں۔ ہمارے انصاف کے مراکز میں ابھی تک زیادہ تر ’’جذبہ خدمت‘‘ کی جگہ ’’می لارڈ‘‘ کی صدیوں پرانی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔دنیا بھر میں سرکاری ملازمتوں کا تصور ایک سو اسی ڈگری پر بدل چکا ہے لیکن ہمارے افسروں کے کمروں کے آگے کھڑے ’’خوفناک‘‘ دربان آج بھی ملک کے اصل وارثوں کو دھکے دیکر پیچھے دھکیلتے چلے جا رہے ہیں۔ سڑکوں پر نکلیں تو پروٹوکول کا ایک طوفان بدتمیزی ہماری ذلت و رسوائی کا سامان مہیا کرنے کیلئے موجود ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں غیرانسانی رویئے کا سامنا ہماری تقدیر ٹھہرا ہے تو تعلیمی اداروں میں اتنی سکت محسوس نہیں ہو رہی کہ وہ ہمارے نونہالوں کو سہارا دیکر دنیا کی دوڑ میں شامل کر سکیں۔ کم تولنا، ملاوٹ کرنا، ذخیرہ اندوزی، غیر معیاری اشیاء پر ’’معیاری‘‘ کا لیبل لگا کر فروخت کرنا ہماری پہچان اور بیرون ملک جاکر بھیک مانگنا ہمارا محبوب ترین ’’پیشہ‘‘ بن چکا ہے۔ کون سا عیب ہے جو ہم نے نہیں پالا اور کون سا ذہن ہے جس کی آنکھ جدیدیت کے تقاضوں کے سامنے بند نہیں کر دی۔ دنیا یورپ کی ’’ڈارک ایجز‘‘ کی مثالیں دیتی ہے جبکہ ہماری ’’غیر انسانی حرکتوں‘‘ کے سامنے یورپی تاریک دور بھی ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ سب سے بڑھ کر ہماری سیاسی جماعتوں کا پریشان کن کردار ہے جو پورے ملک میں تو جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں لیکن خود اس سے اتنا ہی دور بھاگتی ہیں جتنا شیر سے ہرن … ان اکثریتی جمہوری جماعتوں پر آمریت کا نہ ختم ہونے والا اندھیرا مسلط ہے۔ کسی بھی قسم کی آزادیاں دلانے کا دعویٰ وہ ’’سیاسی گروہ‘‘ کر رہے ہیں جو خود ایک شخصیت یا خاندان کے گرد ’’لٹو‘‘ کی طرح گھوم رہے ہیں۔
ہم بحیثیت مجموعی ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ اقدامات اور سنجیدہ مسائل کی ’’کاسمیٹک سرجری‘‘ کے ایسے عادی ہو گئے ہیں کہ جس سے مسائل حل ہونے کی بجائے مضحکہ خیز انداز میں مزید مہلک ہو کر سامنے آتے جا رہے ہیں اور پھر ہم انہیں مزید سے مزید تر ہولناک بنانے میں جْت جاتے ہیں۔یہ سب صورتحال دیکھ کر بے اختیار منٹو صاحب کا مضمون ’’پٹاخہ‘‘ یاد آ جاتا ہے۔ دو چار جملے آپ بھی سنیئے اور سر دھنیے۔ 
’’پاکستان میں بچوں کو آتشبازی کی لعنت سے بچانے کیلئے حال ہی میں ایک انجمن قائم ہوئی ہے اس کا نام ’’انجمن انسداد پٹاخہ جات‘‘ ہے اور اس کا صدر دفتر ’’بارود خانہ‘‘ میں قائم ہے‘‘ (سبحان اللہ)۔ 
اس طرح وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اس سال آتشبازی سے جل کر مرنے والے بچوں کی تعداد پچھلے سال سے دو گنا بتائی جاتی ہے۔ پاکستانی والدین نے اس پر بہت تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ آتشبازی سے جل کر مرنے والے بچوں کی ایک تعداد مقرر کر دے۔ حکومت سے اس سلسلے میں چنانچہ ایک نئی وزارت قائم کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے اس وزارت کا عہدہ سنبھالنے والے وزیر پٹاخہ کہلائیں گے۔ سنا ہے دو بڑے آتشبازوں میں یہ وزارت حاصل کرنے کیلئے جوڑ توڑ ہونگے‘‘۔
یہ وہ تضادات ہیں جو منٹو کے دور سے لیکر اب تک ’’ہولناکیوں‘‘ اور ’’خرابیوں‘‘ کا سفر طے کرتے کرتے ’’سروقامت‘‘ سے بھی کئی قد آدم بڑے ہو چکے ہیں۔
یہاں چھوٹا سا تذکرہ تیزی سے ہوتی ’’Brain Drain‘‘ یا وطن سے دور جاتے ’’عقلمندوں، اور ’’ہنرمندوں‘‘ کا بھی کر دینا چاہئے۔ یقیناً ہمارے ہاں اس کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان ’’عقلمندوں‘‘ اور ’’ہنرمندوں کیلئے ہم نے ملک کے اندر ایسا کون سا بندوست کر رکھا ہے کہ وہ ’’یہاں پرانی کہانیوں کے آخری جملوں کی طرح ’’ہنسی خوشی‘‘ زندگی بسر کر سکیں؟ ان حالات میں وہ یہاں سے کوچ کرکے اور کیوں نہ کسی بن ہی میں جابسرام کریں؟
 ’’اہل دانش و ہنر کا جو حال ہم نے کیا ہے اس کا بہت سا عکس ابن انشاء کے مضمون ’’ہم تو سفر کرتے ہیں‘‘ سے ہی نمایاں ہو جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’قصہ دو مسافروں کا تو آپ نے سنا ہوگا وہ کہیں چلے جا رہے تھے۔ ایک کا پاؤں رپٹا تو ایک اندھے کنویں میں گر گیا اور واویلا کیا۔ دوسرے صاحب کچھ افیم اور کچھ انا کے نشے میں مست تھے۔ چونک کر بولے ’’اے عزیز کہاں ہو‘‘؟ گرنے والے نے اطلاع بہم پہنچائی کہ ’’گڑھے میں گر گیا ہوں بلکہ اندھے کنویں میں۔’’ حضرت نے لمحہ بھر توقف کیا اور دعا دیکر چل دیئے کہ اچھا بھائی جہاں رہو خوش رہو‘‘۔
ایک لمحہ سنجیدگی سے اپنی حالت خستہ جس کے غالب خستہ کے بغیر سارے کام بند ہیں پر ایک نظر ڈالئے اور غور کیجیئے کہ ’’ہمیں‘‘ پستی کی اس بستی میں پہنچانے میں یقیناً یہود و ہنود کا بھی بڑا ہاتھ ہوگا کہ دشمن کا تو کام ہی آگ لگانا اور اسے بھڑکانا ہوتا ہے سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم خود کتنے قصور وار ہیں اگر ہمیشہ دشمن ہی ہمارے عزائم اور منزلوں کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو سوال تو یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ہم ’’خودی کو اتنا بلند کیوں نہیں کر لیتے کہ اس سے قبل کوئی دشمن ہماری راہ میں آئے، ہم اس کے راستوں میں اتنے کانٹے بکھیر دیں کہ وہ انہیں چنتا ہی رہ جائے۔ 
کسی فلم کا ایک ڈائیلاگ یاد آ گیا جس میں معززین شہر ایک طوائف کو کہتے ہیں کہ تمہیں اپنا یہ ’’کاروبار‘‘ سمیٹ کر کہیں اور لے جانا ہوگا کیونکہ قریب کے تعلیمی ادارے پر اس کا بہت بْرا اثر پڑ رہا ہے جس پر وہ طوائف بڑے اعتماد سے پوچھتی ہے کہ تعلیمی ادارے کا اچھا اثر میرے اوپر کیوں نہیں پڑ رہا‘‘ 
 ہمیں یہ بات بھی صدق دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ آنگن بھی کئی اعتبار سے ٹیڑھا ہو سکتا ہے اور آجکل کی مشکل دنیا میں ہوتا بھی ہے لیکن اس کا ہر وقت ہی گلہ کرتے رہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمارا ’’ناچ‘‘ صحیح طرح کی پرفارمنس دینے سے قاصر دکھائی دے رہا ہے۔
دنیا قیامت کی چال چلتی جا رہی ہے اور ہم ’’غم روزگار‘‘ میں ہی الجھ کر رہ گے ہیں اور اس غم میں مبتلا ہوکر روز قرض کی مے پیتے چلے جا رہے ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہ باتیں ہیں؟ کیا قیامت ہے کہ زہر پینے اور پلانے والے دونوں ’’قبیلے‘‘ جو کام اتفاق رائے سے کر رہے ہیں وہ اس ’’شاخ‘‘ کو کاٹنے کا ہے جس پر دونوں براجمان ہیں۔
 وطن عزیز میں عقلمندانہ سوچ اور صحیح سمت میں آگے بڑھنے کے عمل کا ’’قحط‘‘ دیکھ کر ساغر صدیقی یاد آ گئے۔ 
تشنگی تشنگی ارے توبہ 
قطرے قطرے کو ہم ترستے ہیں 
اے رب تسنیم و کوثر 
تیرے بادل کہاں برستے ہیں 
…………………(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن