’’صرف اور صرف پاکستان‘‘

’’100فیصد‘‘ درست ملک ۔قوم سے بڑھ کر کوئی اہم نہیں اگر آج ہم قومی مفاد کی صحیح تعریف کو اپنالیں تو لمحات میں ملکی حالات بہتر راستے پر چل پڑیں ۔ ضروری ہے کہ ہم سب صرف اور صرف پاکستان کے مفاد ۔سلامتی ۔استحکام کو مدنظر رکھیں ہر پالیسی میں۔ ہر کام میں ۔ ہر فیصلہ میں صرف اور صرف پاکستان ہماری ترجیح اول ہونا چاہیے۔ اچھا قدم ہوتا اگر حکومت اِس مرتبہ ہی ’’پٹرولیم مصنوعات‘‘ کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی کر دیتی عالمی منڈی میں کچھ ماہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان چل رہا ہے اِس کا فائدہ لازمی طور پر عوام کو منتقل ہونا چاہیے تھا ۔بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان بھلا معلوم ہوا یہ ضرور کر دیں کہ متوقع کمی کی مدت مختصر کر دیں اِسی ’’مبارک مہینہ‘‘ میں کمی کا اطلاق کردیں ساتھ ہی پٹرولیم میں بھی کمی کا فائدہ عوام کو دیدیں تاکہ ’’عید‘‘ جیسے ’’پُرمسرت‘‘ تہوار کی خوشیاں دوبالا ہو جائیں ۔ مزید براں ’’سولر پالیسی‘‘ کے ضمن میں بھی حکومت اپنے فیصلوں کو برقرار رکھے۔
برآمدات 60ارب ڈالر کرنیکی حکمت عملی بنانے کی ہدایت۔ اگر حکومت ٹھان لے تو مشکل نہیں بس صرف ’’نیت‘‘ کرنے کی حکمت عملی بنانی پڑے گی پر اب تک کی تاریخ کے تناظر میں ؟؟؟وزیر خزانہ کی بات 100فیصد درست واقعی ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہوسکتا حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے اقدامات کی نوید کے ساتھ بیان تھا کہ ’’جون‘‘ تک ’’رائٹ سائزنگ ‘‘ کا عمل مکمل کر لیں گے۔ ’’21فروری‘‘ کے اخبارات میں بیان شائع ہوا۔ ’’27فروری‘‘ کوبھاری بھر کم وفاقی کابینہ کے سائز میں مزید متعدبہ حصہ شامل۔چلیئے حکومتوں کی ضروریات کو حکام بالا ہی بخوبی جانتے ہیں ہمیں تو صرف عوام کے مسائل سے غرض ہے ہماری ضروریات کو حکومت سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا کیونکہ گلی ۔ محلوں سے عوام سے ووٹ لینے والے ہی حکومت سازی کرتے ہیں وہ عوامی تکالیف سے خوب آگاہ ہوتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔ بچپن میں ہم درسی کتب سے خود پڑھتے تھے اب اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف لکھ دینے سے تو کوئی ’’برینڈ‘‘ نہیں بن جاتا ۔ عملی میدان کی کارگزاری تو خود ہی اُچھل کر کُل کائنات میں پھیل جاتی ہے۔ حکومتی اقدامات کی تعداد واقعی کافی لمبی ہے پر نتائج ؟؟ زراعت پر مبنی پالیسیاں بنانے کی بجائے کسان کُش فیصلوں نے نہ ہمیں زرعی ملک رہنے دیا اور نہ ہی ہم صنعتی میدان میں کوئی معرکہ بپا کر پائے۔ اب حالات یہ ہیں کہ کچھ سالوں سے سرمایہ اور ذہانت دونوں کے باہر منتقل ہونے کی رفتار ہر گزرتے دن بڑھتی جا رہی ہے۔ ’’دبئی چیمبر آف کامرس‘‘ کے 2024 اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ’’ 8ہزار 179‘‘نئی پاکستانی کمپنیوں نے اپنی رجسٹریشن کرائی ہے۔ ہم ترقی کن شعبوں میں کر رہے ہیں ؟؟دنیا کی ذہین ترین قوم کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ عدل سے لیکر کرپشن ۔ تعلیمی تنزلی ۔ انسانی مساوات حتیٰ کہ کام کی جگہ پر ہراسانی کے نمبر میں ہمارا نمبر کتنا ہے ؟؟ ’’گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس‘‘ کے مطابق 146ممالک میں ہمارا نمبر ’’145واں‘‘ ہے بھلے عالمی مسئلہ ہے پر کچھ تو ہم خوف محسوس کریں ۔ کِسی جگہ۔ شعبہ کو تو عزت بخش دیں۔ کیا ہوگاہے ہم کو ؟؟ ساری قوم ہی پُھٹے پاسے‘‘ چل نکلی ہے۔ ہم بیماری کا علاج کرنے کی بجائے مرض کی علامات چُھپانے کی کوشش کرتے ہیں ظاہر ہے نتیجہ بھی ہماری بنائی ہوئی دوا کے مطابق ہی نکلنا ہے۔ ہماری تمام تر نیت کا مدار صرف ایک ’’نکتہ‘‘ میں ہے کہ پیسوں کو عوام کی جیبوں
سے نکال کر ’’کارٹل مافیاز‘‘ کے اکاؤنٹس میں ڈالنا ۔ کیا اِس سچ میں کوئی جھوٹ ہے ؟؟ اب تک کی تاریخ سب کے سامنے ہے۔
’’بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ‘‘
’’کوالالمپور‘‘سے24خواتین سمیت ’’41 بھکاری‘‘ بیدخل ۔ شائد لمحہ موجود میں کوئی ہی ملک ہوگا جہاں پاکستانی بھیک مانگنے نہیں پہنچے۔ یہ امر پہلے بھی تشویشناک تھا کچھ عرصہ سے بیرون ممالک جانے والوں کی تعداد میں نمایا ں اضافہ انتہائی سنگین بدنامی والا مسئلہ بن چکا ہے۔ افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں گداگری باقاعدہ ایک منظم۔ جکڑے ہوئے کاروبار کی شکل بن چکی ہے۔ پاکستان کے کسی شہر میں چلے جائیں ۔ کوئی سٹرک ۔کوئی چوراہا پیشہ ور بھکاری سے خالی نظر نہیں آئے گا ۔ بلا مبالغہ یہ تعداد کروڑوں میں جا پہنچی ہے۔ نسل در نسل پروان چڑھتا متذکرہ ’’کاروبار‘‘ پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے ۔ ’’منظم بھیک بل‘‘ کی منظوری کی خبر شائع اور نشر ہوئی مگر ’’گروہوں‘‘ پر منظم کریک ڈاؤن کی بجائے اِکا دُکا کاروائیوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیںوہ بھی ’’بل‘‘ کی منظوری کے ابتدائی ایام میں۔ پر اب تو ’’ماہ مبارک‘‘ سایہ فگن ہے۔ اِس مہینہ کی آمد سے قبل ہی ’’بھکاری گروہ‘‘ روزی۔ روٹی سے تنگ پاکستانیوں کو باقاعدہ گروپس کی صورت میں باہر کے ممالک بجھوانا شروع ہو جاتے ہیں بطور خاص انسانوں کی منتقلی کے لیے اِس ’’ماہ مبارک‘‘ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
’’سچا مومن‘‘ تو سارا سال ’’رقیق القلب‘‘ رہتا ہے پر اِس ماہ مبارکہ کے سایہ فگن ہوتے ہی پوری مسلمان کمیونٹی بطور خاص نرمی ۔ مدد کے جذبات میں ڈھل جاتی ہے جو کہ اچھی بات ہے پر زیادہ اچھا فعل یہ ہونا چاہیے کہ ’’اربوں روپے‘‘ نقدی یا راشن ۔ کپڑے کی صورت دینے کی بجائے افراد کی بحالی کے جامع پروگرامز اختیار کریں ۔ اگر ہر پاکستانی اپنی سال بھر کی زکوٰۃ ۔ خیرات ۔ صدقہ کے حجم کے مطابق بے روزگار لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے پر صرف کر دے تو اِس سے بڑھ کو کوئی نیکی نہیں ہوسکتی ۔ بھلے اسوقت لاکھوں ’’این جی اوز‘‘ برسر عمل ہیں مگر ٹھنڈے دماغ سے غوروفکر کے بعد نتیجہ ’’زیرو‘‘ ہی برآمد ہوگا۔ کیونکہ اگر وصول کردہ فنڈز کا معیاری ۔ بامقصد استعمال یقینی بنا لیں تو نتائج آج مختلف ہوتے ۔ ’’این جی او‘‘ بھی گداگری کی ایک باقاعدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ آمدورفت ۔ ذاتی تشہیر کروڑوں کے اشتہارات میںذاتی تصاویر ۔ پیسے دیکر ’’ٹی وی چینلز‘‘ پر لمبے انٹرویوز۔ اس کے علاوہ بھی غیر ضروری مدات میں عطیات کا استعمال ہوتا ہے حکومت کو گداگری کی ہر قسم ۔ شکل پر لازمی طور پر کڑی گرفت کرنی چاہیے ۔ معاشرے کو تعمیری اذہان کی ضرورت ہے ناکہ بیمار ۔ ناکارہ اشخاص کی۔ 

ای پیپر دی نیشن