گھٹتی چیخیں، ایک نہ ختم ہونے والا کرب

خواتین کے خلاف جنسی ہراسگی ایک گہری جڑیں رکھنے والا سماجی روگ ہے، جو کئی ترقی پذیر اقوام بشمول پاکستان میں ایک ہمہ گیر مسئلہ بن چکا ہے، جو معاشرتی تانے بانے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔  یہ قبیح فعل گھریلو فضا، پیشہ ورانہ حلقوں، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات میں مختلف اشکال میں رونما ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خواتین کی جسمانی و ذہنی سلامتی شدید متاثر ہوتی ہے۔یہ سنگین مسئلہ خواتین کی خودمختاری سلب کرتا ہے، ان کی سماجی و معاشی نقل و حرکت محدود کرتا ہے، اور ان کے تعلیمی و پیشہ ورانہ امکانات کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اگرچہ قانونی اصلاحات اور شعور کی بیداری میں پیش رفت ہو رہی ہے، مگر گہرے پیوستہ مردانہ بالادستی کے رجحانات، ادارہ جاتی کمزوریاں اور سماجی بدنامی کا خوف آج بھی ایسے جرائم کو دبانے اور مجرموں کو بے خوف رکھنے کا سبب بنتا ہے۔ نتیجتاً، بیشتر خواتین اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے سے قاصر رہتی ہیں، اور جو شکایات درج کی بھی جاتی ہیں، انہیں اکثر انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا۔یہ خاموشی اب ٹوٹنی چاہیے، یہ جبر اب ختم ہونا چاہیے! خواتین کے خلاف ہراسگی صرف ایک فرد پر حملہ نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی شکست ہے۔ جب تک ہر سطح پر اس ظلم کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے، ترقی اور مساوات محض نعرے ہی رہیں گے۔
دنیا بھر میں جنسی ہراسگی کا ناسور خوفناک حد تک پھیلا ہوا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ یہ شرح کم آمدنی والے ممالک میں اور بھی زیادہ سنگین ہو جاتی ہے، جہاں تقریباً 37 فیصد خواتین اس بربریت کا سامنا کرتی ہیں۔بدقسمتی سے، پاکستان بھی اس عالمی بحران کا ایک بھیانک عکس پیش کرتا ہے۔ سالانہ ہزاروں جنسی تشدد، ہراسگی، حملے اور زیادتی کے کیسز درج کیے جاتے ہیں، مگر انصاف کا عالم یہ ہے کہ سزا کی شرح صرف 3.0  فیصد تک محدود ہے، یعنی ہر ہزار مجرموں میں سے محض تین کو سزا ملتی ہے۔تحقیقات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کام کی جگہوں پر ہراسگی عام ہے، اور تقریباً ہر دوسری عورت یا تو خود اس کا نشانہ بنی ہے یا کسی اور کو اس اذیت سے گزرتے دیکھا ہے۔ اس بدترین صورتحال نے خواتین کے پیشہ ورانہ خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے، اورانہیں روزگار کی دوڑ سے باہر دھکیل دیا ہے۔
تعلیمی ادارے، جو فکری ترقی اور خودمختاری کے مراکز ہونے چاہئیں، بدقسمتی سے جنسی ہراسگی کی لعنت کے اسیر ہو چکے ہیں۔ طالبات نہ صرف اپنے ہم جماعتوں بلکہ اساتذہ اور عملے کی جانب سے بھی ہراسگی کا نشانہ بنتی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک خوف زدہ اور زہر آلود تعلیمی ماحول جنم لیتا ہے۔ یہ زہر نہ صرف ان کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کی ذہنی صحت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے۔بے شمار نوجوان طالبات خوف اور ہراسمنٹ کے باعث تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں ڈراپ آئوٹ ریٹ میں اضافہ ہوتا ہے اور خواتین کی معاشی خودمختاری مزید محدود ہو جاتی ہے۔ یوں تعلیم، جو ایک عورت کو خودمختار بنانے کا ذریعہ ہے، اس کے لیے ایک نامکمل خواب بن جاتی ہے۔مزید برآں، رپورٹنگ کا ناقص نظام اور موثر حفاظتی پالیسیوں کی عدم موجودگی متاثرہ خواتین کو مکمل طور پر بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔ جب کوئی طالبہ ہمت کر کے ہراسگی کے خلاف آواز بلند کرتی ہے، تو اسے انصاف کے بجائے شکوک و شبہات، الزام تراشی،  حتیٰ کہ دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی رویہ شکایت کنندگان کو مزید خوفزدہ کر دیتا ہے اور مجرموں کو کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔ جب تک تعلیمی ادارے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے، ہراسگی کے خلاف سخت قوانین لاگو نہیں ہوتے، اور مجرموں کو واقعی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، تب تک یہ زہر نسل در نسل پھیلتا رہے گا، اور خواتین کے خواب اور ان کی صلاحیتیں اسی طرح برباد ہوتی رہیں گی۔
عوامی مقامات جو سب کے لیے آزادانہ رسائی کے لیے بنائے جاتے ہیں، خواتین کے لیے خطرے کی علامت بن چکے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں ناپسندیدہ جسمانی رابطے کے واقعات نے خواتین کے لیے خوف اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ ہراسگی کے مستقل خطرے نے خواتین کو حد درجہ محتاط رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انہیں اپنے راستے بدلنے پڑتے ہیں، مخصوص لباس پہننے کی فکر کرنی پڑتی ہے، اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، ان کی سماجی اور پیشہ ورانہ سرگرمیاں محدود ہو جاتی ہیں، اور ان کا آزادی سے جینے کا حق سلب کر لیا جاتا ہے۔یہ روزمرہ کی ہراسگی، جسے اکثر معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، درحقیقت صنفی عدم مساوات کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
 معاشرہ مجرم کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے، متاثرہ خاتون پر انگلی اٹھاتا ہے۔ روایتی سوچ خواتین کو زیادتی سہنے، چپ رہنے اور بدنامی سے بچنے کا درس دیتی ہے، جبکہ اصل مجرم معاشرتی دبائو سے محفوظ رہتے ہیں۔ اکثر خاندان بدنامی، عزت اور سماجی وقار کے نام پر متاثرہ خواتین کو رپورٹ درج کروانے سے روک دیتے ہیں، یوں وہ مزید تنہائی اور بے بسی کا شکار ہو جاتی ہیں۔متاثرہ خواتین جب اپنی شکایات لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جاتی ہیں، تو انہیں تحفظ اور انصاف کے بجائے بے حسی اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر پولیس افسران ہراسگی کی شکایات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے، متاثرہ خواتین پر ہی الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔ بیشتر افسران کو صنفی حساسیت کی کوئی تربیت حاصل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ ہمدردی کے بجائے متاثرہ خواتین کو مزید خاموش رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
 جنسی ہراسگی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ایک ہمہ جہتی اور موثر حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جو قانونی اصلاحات، ادارہ جاتی استحکام، سماجی تبدیلی اور عوامی شمولیت پر مشتمل ہو۔ قوانین کو مزید سخت اور ان کا سریع العدالتی نفاذ یقینی بنانا ہوگا تاکہ مجرموں کو فوری اور مثالی سزائیں دی جا سکیں۔ خصوصی ٹریبونلز اور تیز تر قانونی کارروائی متاثرین کو تحفظ فراہم کرے گی اور انہیں ہمت دے گی کہ وہ بلا خوف اپنی شکایات درج کروا سکیں۔ پولیس اور عدلیہ کو خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ ہراسگی کے کیسز کو حساسیت اور سنجیدگی سے نمٹائیں، اور متاثرہ خواتین کو ہراسگی کے بجائے انصاف ملے۔ ہراسگی کو معمولی سمجھنے اور متاثرہ خواتین کو قصوروار ٹھہرانے کے بجائے معاشرتی بیداری مہمات شروع کی جائیں، جن کے ذریعے ہراسگی کے خلاف  عدم برداشت کا پیغام دیا جائے۔ تعلیمی نصاب میں صنفی مساوات، اخلاقیات اور باہمی احترام کو شامل کیا جائے تاکہ آئندہ نسلوں کی ذہن سازی بچپن سے ہی ہو سکے۔ تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں میں واضح اینٹی ہراسمنٹ پالیسیاں، محفوظ شکایتی نظام، اور خواتین کی شکایات پر فوری کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ اندرونی شکایتی کمیٹیاں، باضابطہ تربیتی پروگرام، اور ادارہ جاتی نگرانی ایسے اقدامات ہیں جو خواتین کے لیے ایک محفوظ اور باوقار ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔
 مذہبی رہنما، سماجی کارکنان، اور ثقافتی شخصیات اس جدوجہد میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اردگرد موجود افراد کی فوری مداخلت کے کلچر کو فروغ دیا جائے تاکہ ہراسگی کا شکار خواتین خود کو تنہا محسوس نہ کریں اور معاشرہ مجرموں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو۔جب تک سماجی، قانونی اور ادارہ جاتی ڈھانچوں میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں، خواتین کے خلاف ہراسگی کا یہ زہر جڑ سے ختم نہیں ہوگا۔ متاثرہ خواتین کو قصوروار ٹھہرانے کے بجائے، مجرموں کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔ قانونی نظام کو موثر تیز تر اور حساس بنانا ہوگا۔ اور ایسے معاشرتی رویے کو ختم کرنا ہوگا جو ہراسگی کو معمولی سمجھ کر اس کی راہ ہموار کرتا ہے۔
یہ ظلم کب تک برداشت کیا جائے گا؟ کب تک مجرم آزاد گھومتے رہیں گے اور متاثرہ خواتین خاموش رہنے پر مجبور ہوں گی؟ جب تک قانونی عمل کو سخت، سزا کو یقینی، اور معاشرتی رویوں کو غیرت کے بوجھ سے آزاد نہیں کیا جاتا، تب تک انصاف ایک خواب ہی رہے گا، اور خواتین کی خودمختاری، ترقی اور تحفظ خطرے میں رہے گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ خاموشی کو توڑ کر، اس ظلم کے خلاف ایک ناقابلِ تسخیر دیوار کھڑی کی جائے۔ یہ لڑائی صرف خواتین کی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ہر گھر کی بیٹی، بہن اور ماں اسی ظلم کا شکار ہوگی۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اس نظام کو چیلنج کریں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں عورت کا وقار، اس کی خودمختاری اور اس کی آزادی محفوظ ہو۔ اب وقت آچکا ہے کہ خاموشی کو توڑا جائے اور اس ظالمانہ نظام کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی جائے۔
٭…٭…٭

عاطف محمود  ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

ای پیپر دی نیشن