اسلام آباد( نمائندہ خصوصی)چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تحت قابل تجدید توانائی کی ترقی میں چینی سرمایہ کاروں کیلئے مالی مواقع کی تلاش کے حوالے سے منعقدہ سربراہی اجلاس میں مقررین نے اس امر پر زور دیا ہے کہ سی پیک منصوبے کے دوسرے مرحلے کا مرکز گرین اور ماحول دوست سرمایہ کاری ہوگی جس کے ذریعے کاربن پر مبنی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔ مقررین نے کہا کہ چینی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے پاکستان کو نجی شعبے اور مختلف شراکت داروں کے ساتھ اشتراک کرنا ہوگا۔’’سی پیک کے تحت قابل تجدید توانائی کی ترقی: چینی نجی شعبے کیلئے مالی مواقع‘‘ کے موضوع پریہ اجلاس پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ (PCI) کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔اپنے ابتدائی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے نائب سربراہ ڈاکٹر وقار احمدنے کہا کہ قابل تجدید توانائی کی سرمایہ کاری میں چین کا موقف پائیدار ترقی اور صاف توانائی کیلئے مثبت اشارے دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے قابل تجدید توانائی کے اہداف کو پورا کرنے کیلئے 115 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کے ساتھ اشتراک سے گرین توانائی کے ایجنڈے کو مکمل کیا جا سکتا ہے۔ پی سی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سیدنے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہے اورگرین فنانسنگ کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے گرین ٹرانزیشن کی چین اور پاکستان کے درمیان مشترکہ ورکنگ گروپ کے ذریعے ادارہ جاتی طور پر تشکیل ضروری ہے۔ پینل گفتگو میں سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر سی پیک ڈاکٹر حسن داود بٹ نے کہا کہ عالمی اقتصادی منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے اسلئے پاکستان کے مسائل پر قابو پانے کیلئے پالیسوں کا تسلسل بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ گرین انرجی منتقلی کے فوائد حاصل کرنے اور قومی ایجنڈے کو اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے چینی ترقی کے ماڈل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اس سلسلے میں سیاسی رہنماؤں، ماہرین تعلیم، ماہرین اور وزارتوں کے درمیان ٹیم ورک کیلئے ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔