انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا، زمین پر اپنا خلیفہ بنایا مگر افسوس کہ انسان اللہ کی اس عظمت کو سنبھال نہیں پاتے اور اپنی سطح سے گر جاتے ہیں ۔ چھوڑئے ان دل جلانے والی باتوں کو ویسے بھی بقر عید قریب ہے اور اس عید کے سہانے سپنوں میں چاند تارے پھول نہیں بلکہ قربانی کے جانور نظر آتے ہیں کہیں گائے، کہیں بیل اور کہیں بکرا مگر ان تمام جانوروں میںجو اذلی مقبولیت بکرے کو حاصل ہے وہ دوسرے جانوروں کے حصے میں نہیں آئی ۔
بکرے سے بچے خاص طورپر بہت محبت کرتے ہیں اور اسی لئے اکثر بچے بقر عیدکو ’’بکرا عید ‘‘ کہتے ہیں ان کے خیال میں بکرا اور عید لازم وملزوم ہیں جب تک بکرا گھر میں نہ آجائے بچوں کی عید کی تیاری ادھوری رہتی ہے مگر جیسے ہی بکرا گھر میں آتاہے بچے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں کیونکہ بڑے جانور کی نسبت بکرے کو گھمانا پھرانا آسان ہو تا ہے سکول سے آکر بچوں کا زیادہ وقت بکرے کے ساتھ ہی گزرتاہے اوروہ اسی ’’ہوم ورک‘‘ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں بکرے کو خوب سجایا جاتا ہے اس کی پیٹھ پر مہندی سے بیل بوٹے بنائے جاتے ہیں گلے میں رنگین پٹا اور پٹے میں چھن چھن کرتے گھنگرو ہوتے ہیں جو شاید اس لئے لگائے جاتے ہیں کہ اگر کبھی بکرا فرارہونے کی کوشش کرے تو گھنگروئوں کی آواز سے گرفتار ہوسکے۔ لیکن جب کوئی انسان بکرا چرانے آتا ہے تو وہ سب سے پہلے گھنگرو والا پٹا ہی اتارتا ہے تاکہ آسانی کے ساتھ بکرے سمیت فرار ہو سکے۔ جی تو بات ہورہی تھی بکرے کی سجاوٹ کی، معصوم سا جانور سج بن کر خوشی خوشی گلیوں میں پھرتا ہے اور اپنے انجام سے بے خبر گاھے بگاھے اپنی تیاری آنکھوں سے بڑے مستحسن انداز میں مالک کو دیکھتا رہتا ہے اس بات سے بے خبر کہ عید کے دن قربانی کے بعد یہی آنکھیں سری سمیت پتھراجائیں گی ۔
عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ بکرا انسان کے ساتھ رہتے ہوئے تہذیب سیکھ لیتا ہے اور ٹکریں مارنے کی بجائے اطمینان سے دانے پٹھے کھاتا ہے اور چند دن کے سیر سپاٹے کے بعد صیاد سے اتنا مانوس ہو جاتا ہے کہ رہائی ملنے کے خیال سے ہی مرنے لگتا ہے بکرے کی اس سادگی پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے ۔بچے زیادہ تر سفید بکرے کو پسند کرتے ہیں تاکہ مہندی کا رنگ خوب رچتا نظر آئے۔مہندی اور عید کا پرانا تعلق ہے لہذا اسی تعلق کے پیش نظر خواتین کے ساتھ ساتھ بکرا بھی شوق سے مہندی لگواتا ہے بکرے کو سجاتے گھماتے ہوئے عید پر اس کی تکہ بوٹی اور کباب بنانے کے خیالات انسان کے دماغ میں آتے رہتے ہیں اگر بکرا ان ذریں خیالات سے واقف ہوجائے تو شاید شرافت چھوڑ دے مگر وہ معصوم خوشی خوشی گھومتا پھرتارہتا ہے
بعض انسانوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ غصے میں آپے سے باہر بھی ہوجاتے ہیں اور بکرے کی طرح ٹکر مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور یہ بات یکسر بھول جاتے ہیں کہ وہ خیر سے منصب انسانیت پر فائز ہیں مگر بکرا ایسا ہر گز نہیں کرتا وہ اپنی اوقات میں رہتا ہے اور اپنی جملہ خصوصیات وروایات بھی نہیں چھوڑتا اسے اپنے بکرا ہونے پر فخر ہوتا ہے اور وہ ہر حال میں بکرے سے ملنا چاہتا ہے چاہے کوئی اسے زندہ رکھے یا قربان کردے مگر انسان کو اپنی جبلت بدلتے دیر نہیں لگتی ، غصے انتقام ، حسد اور لالچ میں وہ اپنے منصب سے گرنے میں تامل نہیں کرتا اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسان کبھی کبھی بکرا بن جاتا ہے مگر بکرا کبھی انسان نہیں بنتا۔