اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی جیل ملاقاتوں کے تمام کیسز سماعت کیلئے مقرر کر دیے گئے۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں تین رکنی بنچ آج سماعت کرے گا۔ ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس اعظم خان لارجر بنچ کا حصہ ہوں گے۔ مشال یوسفزئی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پر توہینِ عدالت کیس بھی مقرر کردہ کیسز میں شامل ہے۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت نے عدالتی احکامات کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت درخواست میں کاز لسٹ منسوخ کرنے پر ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا اور ریمارکس دیے کہ کیا چیف جسٹس کے پاس ایک جج کے پاس زیر سماعت کیس اس کی مرضی کے بغیر دوسرے جج کو منتقل کرنے کا اختیار ہے؟، ججز کا اصل احتساب عوام ہے، پبلک جب یہ دیکھے گی تو کہے گی کہ طاقت ور لوگوں کے خلاف کیس ہو گا تو جج بے بس ہیں وہ تو چیف جسٹس ہی سنے گا، میں یہ کارروائی ان تمام سوالات کو طے کرنے کیلئے شروع کرنے جا رہا ہوں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سٹیٹ کونسل سے استفسار کیاکہ جو کچھ ہوا ہے کیا آپ اس میں ملوث ہیں؟۔ جس پر سٹیٹ کونسل نے کہا کہ ہمارے علم میں نہیں تھا، یہ پرائیویٹ وکیل کے ذریعے درخواست دی گئی تھی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ کیس منتقلی کیلئے یہ متفرق درخواست کس قانون کے تحت دائر کی گئی؟۔ کیا ریاست جج کی مرضی کے بغیر کیس لارجر بنچ کو منتقل کرنے کی حمایت کرتی ہے؟۔ یہ کرنے کی بجائے آپ میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑا دیتے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈپٹی رجسٹرار سے استفسار کیا کہ آپ نے کس کے کہنے پر کازلسٹ منسوخ کی۔ جس پر ڈپٹی رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں چیف جسٹس آفس سے ہدایات آئیں تھیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے توہینِ عدالت کیس کی کازلسٹ منسوخ کرنے پر سوموٹو توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کر دی۔ اس سے بڑی حماقت نہیں کیونکہ قانون کی عملداری کے بغیر معیشت ترقی کرے ممکن نہیں ہے، یہ میری ذات کا یا میرے اختیارات کا مسئلہ نہیں بلکہ ہائیکورٹ کی توقیر کا ہے، کیا اس طرح عوام کا نظام انصاف پر یقین رہے گا، شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس کیس میں ریاست اور سپرنٹنڈنٹ تو متاثرہ فریق بھی نہیں تھے، ہمیں کل کو کیا انصاف ملے گا، مشال یوسفزئی نے کہا کہ ہمارے ساتھ باہر یہ ہورہا ہے تو بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے ساتھ جیل میں کیا کرتے ہوں گے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ آپ وہ بات کررہی ہیں ہمیں تو اپنے ادارے کی فکر ہوگئی ہے، گائیڈڈ میزائل آپ کی طرف جارہا تھا وہ اب ہماری طرف آرہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیدیا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ لارجر بنچ جو کارروائی کر رہا ہے اس عدالت کی کارروائی کی توہین میں کر رہا ہے، جسٹس سردار اعجازاسحاق خان نے کہاکہ ججز کا اصل احتساب عوام ہے، پبلک جب یہ دیکھے گی تو کہے گی کہ طاقت ور لوگوں کے خلاف کیس ہو گا تو جج بے بس ہیں، وہ تو چیف جسٹس ہی سنے گا، میں یہ کارروائی ان تمام سوالات کو طے کرنے کیلئے شروع کرنے جا رہا ہوں، عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہائیکورٹ کے جج عدلیہ کی آزادی پر اس تجاوز کو برداشت نہیں کریں گے، مجھے رات کو اتنا دکھ ہوا ہے کہ بات یہاں پہنچ چکی ہے، آپ اس حد تک آگے نکل گئے کہ کمیشن کو ایک منٹ تک ملاقات نہیں کرائی، آپ نے فیصلہ کر لیا کہ صدیوں کی روایات کو بھی ختم کر دینا ہے، عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی۔