یوم پاکستان 23مارچ 1940قرارداد پاکستان سے قیام پاکستان تک


 23مارچ 1940 کو قرارداد لاہور جسے قرارداد پاکستان کہاجاتاہے سے شروع ہونے والی آزادی کی تحریک کا یہ سفر اپنی کامیابی کے ساتھ 14اگست1947 کو اختتام پذیرہوگیااور اس کے بعد اس سرزمین پر ریاست خداداد پاکستان،، ایک روشن ستارے کی مانند نظر آرہاتھا ، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کاقیام جن مقاصد کیلئے عمل میں آیاتھا اس میں نہ تو دہشت گردی تھی نہ فرقہ واریت، نہ ذخیرہ اندوزی اور نہ ہی انصاف کاقتل بلکہ نئی ریاست کاصاف مقصد یہی تھا کہ سب کو برابری کی بنیاد حقوق حاصل ہوں، ہم نے برصغیر و پاک ہند میں ایک آزاد ریاست اس لئے حاصل نہیں کی تھی کہ اسے حاصل کرلینے کے بعد وہاں انسانوں کااستحصال شروع کردیاجائے جس طرح آج تک ہوتا آرہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت نے پورے برطانوی راج کوہلاکر رکھ دیاتھا، ہندوستان سے مشرق وسطی، یورپ تک ریاست پاکستان مسلمانوں کاحب بنتا دکھائی دے رہاتھا ، میں سمجھتاہوں سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد اگر مسلمانوں کی حمایت یا ان کی ترجمانی کیلئے کوئی ریاست کھڑی ہوسکتی تھی تو وہ صرف اور صرف پاکستان تھی یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم قوتوں نے پاکستان کو شروع سے پنپنے ہی نہیں دیا گیا پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ قائداعظم محمد جناح قیام پاکستان کے بعد زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہ سکے جس کا نقصان پاکستان کو کئی دہائیوں تک برداشت کرنا پڑ رہاہے، 7دہائیوں کے بعد آج بھی ریاست خداداد جن مسائل سے دوچار ہے وہ مسائل تو کوئی بھی ملک آزادی حاصل کرنے کے چند سالوں بعد ہی حل کرلیتاہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے ذمے دار ہم سب ہیں ۔ لہذا اب ہمیں آگے کی طرف دیکھناچاہیے اور مستقبل کی فکر کرتے ہوئے اجتماعی طور پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرکے اس پر عمل کرناچاہیے۔ اگر ہم اب بھی یہ نہ کرسکے تو پھر ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے ، اس وقت پاکستان کے مستقبل کا جو نقشہ نظر آرہاہے اس کا تصور بھی یہاں بیان کرنا محال ہے۔ اس مادر پدردور میں ہر انسان خود غرض ہوگیاہے وہ اپنے ذاتی لالچ میں تو سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہوجاتاہے لیکن دوسروں کی خاطر تھوڑی سی تکلیف اٹھانااسے جوئے شیر لانے کے مترادف نظر آتی ہے اس قدر مطلبی ہوجانا تو خود انسانوں کی تباہی کا سبب بنے گا آزادی ایک ایسی نعمت کا نام ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اور آزادی کی قدر صرف وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے آزادی حاصل کرنے کیلئے خود یا ان کے آبا اجداد نے قربانیاں دی ہوتی ہیں اب چاہیں وہ جانی قربانی ہو یا مال کی صورت میں ہو ۔شاید پاکستانیوں کو اس وقت آزاد ی کی قدر نہیں ہے۔ آزادی اس لئے حاصل کی جاتی ہے کہ جب انسانوں کا رہنا اور جینا مشکل ہوجائے انہیں اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے نہ دی جائے تو وہاں آزادی کی تحریک شروع ہوتی ہے جہاں ان کے حقوق دبا لئے جائیں جہاں ان پر زندگی تنگ کردی جائے جہاں پر عزت وقار کے ساتھ جینا مشکل ہوجائے جہاں انسان کی قدرنہ ہو جہاں انہیں کسی بھی قسم کی سہولت میسر نہ ہو غرض یہ ہے کہ زندگی گزارنے کےلئے کوئی بھی چیز دستیاب نہ ہو جب ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو وہ ملک ٹوٹ جاتے ہیں ہم نے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہی دیکھا کہ جب قومیں اپنے مقاصد اور اپنے مذہب کو چھوڑ دیتی ہیں تو وہ تتر بتر ہوجاتی ہیں وہ بکھر جاتی ہیں وہ منقسم ہوجاتی ہیںپھرانہیں یکجاکرنا ناممکن سا ہوجاتاہے فسادات اور طوفان اور آندھیوںاور ہر قسم کے مسائل میں جکڑی قومیں اپنا مستقبل کوبرباد کردیتی ہیں ایک قوم بن کر رہنے والے ہی کامیاب وکامران ہوتے ہیں آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتاہے کہ وہ قومیں جنہیں نے تعلیم کو اپنا زیور بنایاوہ کامیاب ہوگئیں لیکن بدقسمتی سے آج پاکستان میں تعلیم ہی مکمل نہیں ہے آزادی کے 75سال بعد بھی ہمیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بیرونی ملک جانا پڑتا ہے علاج کیلئے بیرونی ملک جانا پڑتاہے،ہم آج تعلیم جیسی نعت سے محروم ہیں اس نعمت سے محرومی کاذمہ دار کوئی دوسرا بلکہ ہم خود ہیں۔ آج کے حالات ہماری اپنی مرہومنت ہیں، اس میں ہمارا اپنا قصور ہے نظام تعلیم بہتر کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے پھر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر قسم کی تعلیم نہیں ہے جس کے باعث لوگ بیرون ملک جاتے ہیں اور انہی کے ماحول رچ بس جاتے ہیں پھر انہیں پاکستانی ماحول پسند نہیں آتا وہاں کی نام نہاد آزادی انہیں اچھی لگنے لگتی ہے لیکن جب انہیں معلوم ہوتاہے کہ جو آزادی یورپ میں لوگوں کو حاصل ہے وہ تو نہ مکمل ہے اس آزادی سے انسانیت کی تکمیل نہیں ہوتی تو وہ ملک میں نئے نظام کی بات کرتے ہیں کیونکہ وہ یورپ کی نام نہاد آزادی کاجائزہ لے چکے ہوتے ہیں ۔ اس آزادی کیا فائدہ جہاں ماں باپ بہن بھائی اور اسی طرح کے دیگر رشتوں کاخیال نہ رہے جوان اولاد بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ہاو¿س چھوڑ کر آجائے جس کے بعد وہ سالوں تک ان سے ملنے تک نہ جانے کس کرب سے گزرتے ہوںگے وہ ماں باپ یہ تو وہی بتاسکتے ہیںیا پھر وہ بتاسکتے ہیں جو دوسروں کا درد اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں۔ پاکی انسان کیلئے اتنی ہی ضروری ہے جتناانسان کیلئے لباس۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کسی قوم کو آزادی پیش نہیں کی گئی بلکہ 
اس کیلئے جدوجہد کاایک طویل مگر دشوار سفر طے کرنا پڑا۔ جس کے راستے میں پہاڑ جیسی رکاوٹوں حائل ہوئیں آگ اور خون کے دریا کو عبور کرنا پڑا مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا تب کہیں جاکر آزادی کامنہ دیکھنا نصیب ہوا۔پاکستان کے قیام کے سلسلے میں تحریک آزادی،،کاحال بھی کم وبیش یہی ہے۔ آزادی کی تحریک 1857میں شروع ہوئی تھی لیکن اس میں تیزی 1906میں مسلم لیگ کے قیام کے ساتھ آنا شروع ہو ئی مگر اس وقت اس کامقصد محض برصغیر میں مسلمانوں کے حقوق کاتحفظ کرناتھا۔ جونہی قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تواس کی سرگرمیوں میں جان آگئی اور اس کے مقصد میں بھی نمایاں وسعت پیداہوگئی۔ قائداعظم کی نئی قیادت کاہندوستان سے انگریزی تسلط کو ختم کرنامقصد قرار پایا۔فکر اقبال کی روشنی میں مسلمانان ہند نے اپنی بقا کی جنگ جاری رکھی اور 1940میں منٹو پارک میں منعقدہ مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس میں قرار داد لاہور منظور کی گئی۔ یہ قراردار فکر اقبال ہی کا ایک تسلسل تھی۔ یہ اجلاس قیام پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس اجلاس سے چار روز قبل خاکسار تحریک کی پریڈ پرپولیس نے فائرنگ کر کے 35 کارکنوں کو شہید کر دیا تھا۔ ان حالات میں مسلم لیگ کی قیادت نے اس اجلاس کو ملتوی کرنے پر غور شروع کر دیا تھالیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے اس اجلاس کو مقررہ وقت پر ہی منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ مسلم لیگ کا یہ اجلاس اپنے وقت پر ہی ہو گا اور اس میں تاریخی فیصلے کئے جائیں گے۔کیونکہ علامہ اقبال نے مسلمانان ہند کو شعور دیا کہ ان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اپنا الگ وطن حاصل کریں اور قرارداد پاکستان میں مسلمانوں نے اسی فکر کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا اور پھر صرف 7سال بعد دنیا میں ایک روشن ستارے کی مانند پاکستان کا قیام عمل آگیا۔

ای پیپر دی نیشن