میرٹ کی موت

طارق امین تیسری آنکھ

آج سے چند ہفتے پہلے اس خاکسار نے وفاق اور پنجاب کی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر ایک کالم لکھا جس میں اس نے فیکٹس اینڈ فگرز جس میں’’ ایف بی آر کے چیرمین راشد لنگڑیال کی تقرری جیسی شفافیت اور پھر پنجاب میں سابقہ روایات کے برعکس سول بیوروکریسی کی ہر روز کی اگاڑ بچھاڑ سے گریز ‘‘ جیسے ٹھوس حقائق کی بنیاد پر اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ان شواہد کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وفاق اور پنجاب میں بڑی حد تک انتظامی امور میں ایک harmony اور میرٹ کے تسلسل کا تاثر کافی مضبوط دکھائی دیتا ہے لیکن یقین جانیئے پچھلے ہفتے سول بیوروکریسی کی ترقی میں پہلے جو ہائی پاور بورڈ اور پھر سینٹرل سلیکشن بورڈ کا جسطرح انعقاد ہوا اور پھر ان اجلاسوں کی کاروائی بارے جسطرح کی گل افشانیاں ، پھلجڑیاں اور تذکرے سول بیوروکریسی کے حلقوں میں سْننے کو مل رہے ہیں اگر انے والے دنوں میں جب انکے نتائج کا آفیشل سطح پر اعلان ہو گا ان میں ان تحفظات کی اگر سو فیصد چھوڑیں پانچ فیصد حقیقت بھی نظر آئی تو جہاں یہ سول سلیکشن کے پورے سسٹم پر ایک نہیں کئی سوالیہ نشانوں کا موجب بنے گا وہیں پر راقم کو لگے گا کہ اس نے اپنے مذکورہ کالم میں میرٹ کی مضبوطی کے جس تاثر کا ذکر کیا تھا اسکی حقیقت بھی ایک چول مارنے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
اب اتے ہیں اْن زمینی حقائق کی طرف جنکی بنیاد پر ان بورڈز کے متعلق کچھ کانسپریسی تھیوریوں کے خالق اپنا بیانیہ ڈویلپ کر رہے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ شروع دن سے ہائی پاور بورڈ جس میں افسران کی گریڈ اکیس سے گریڈ بائیس میں ترقی کا چناؤ ہوتا ہے اس میں ‘‘ پک اینڈ چوز’’ کا عنصر ہی غالب ہوتا ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ گریڈ بائیس ہوتا ہی سلیکشن گریڈ ہے جس میں cum fitness  seniority نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس میں وہی افسران ترقی پاتے ہیں جو حکومت وقت کے منظور نظر ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں تو وہ تاریخی ہائی پاور بورڈ بھی یاد کیا جاتا ہے جب ایک وزیراعظم کی پرنسپل سیکرٹری نے اپنا پورے کا پورا بیج ہی گریڈ بائیس میں پروموٹ کروا دیا تھا جس پر کچھ سنئیر بیوروکریٹ نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا جہاں پر پھر اس سلسلے میں کچھ قواعد س ضوابط بنانے کا کہا گیا جس میں پھر یہ بات سامنے آئی کہ گریڈ بائیس میں جانے کیلیئے کم از کم یہ شرط لازم ہو کہ امیدوار کی گریڈ اکیس میں دو سال سروس لازم ہو۔ جہاں تک cum fitness  seniority سے اجتناب کی بات کا تعلق ہے تو اس دفعہ بھی جو لوگ ترقی پانے میں کامیاب ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت اسی اجتناب سے فیضیاب ہوئی ہے۔ دوسری بات جس نے اس ہائی پاور بورڈ کو ایک دفعہ پھر متنازعہ بنانے کی کانسپریسی تھیوری کو تقویت بخشی وہ اسکی فارمیشنیں ( ہیبت ترتیبی) کے متعلق تھا اور جو لوگ اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والی سرگوشیوں کی خبر رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں ایک سیاسی پارٹی کیوں اس بات پر بضد تھی کہ انکی پارٹی کا چیرمین ہی انکی طرف سے اس بورڈ کا ممبر بیٹھے گا لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ انکی خواہش پوری کرنے کے باوجود تاش کی بازی لگانے والوں نے کس مہارت سے اپنے پتے کھیلے اور وہی کیا جو وہ چاہتے تھے۔
ہائی پاور بورڈ کے بعد اتے ہیں ہیں سنٹرل سلیکشن بورڈ کی طرف کہ افسران کی ترقیاں تجویز کرنے میں یہ اپنا کردار کس طرح ادا کرتا ہے اور اسکی collective wisdom کس طرح attain کی جاتی ہے۔ راقم کے پاس دستیاب معلومات کے مطابق Key point indicatorsجنھے حرف عام میں کے پی آئی کے نام سے پکارا جاتا ہے کو سامنے رکھ کر امیدوار کی اے سی آر جسے پی آر بھی کہا جاتا ہے اسکی اور اسکے ساتھ اس نے جو ٹرینگ کورسز کیے ہوتے ہیں انکی بنیاد پر اسکا ڈیپارٹمنٹ اپنے امیدوار کا ایک ڈوزئیر تیار کرتا ہے جس میں اسکا بلڈ کاونٹ بتاتا ہے کہ محکمہ کو تضویض شدہ 70 نمبروں میں وہ کتنے نمبر لے سکا ہے اور یہ ڈوزئیر بورڈ کے اجلاس سے دو تین روز پہلے بورڈ کے تمام ممبران کو سٹڈی کیلیئے بھیج دیا جاتا ہے تا کہ وہ اپنی سٹڈی کے بعد بورڈ کے اجلاس میں ممبران کو تضویض کردہ 30 نمبروں میں سے اپنی دانست اور صوابدید کے مطابق امیدوار کو نمبر دے سکیں۔ اس سسٹم سے واقفیت رکھنے والے بتاتے ہیں کہ ہر کسی امیدوار کا ڈوزئیر ہی بتا دیتا ہے کہ اسکی ترقی کے کتنے چانس ہیں اور اصولا ہونا بھی یہی چاہیئے کیونکہ اصل خرابی ہی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب صوابدید کا آختیار استعمال ہوتا ہے۔اندر کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ سسٹم کی خرابی صحت کے عمل کی شروعات اس وقت ہوتی ہے جب ڈی آر departmental representativeاس ڈوزیر میں درج حقائق کی صداقت کے باوجود اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ججمنٹ دیتے ہوئے امیدوار کے متعلق اپنی حتمی رائے بیان کرتا ہے جسکے بعد امیدوار پر قیامت کی گھڑی کا نزول اس وقت ہوتا ہے جب سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اپنی پٹاری سے انٹیلجنس اداروں کی تیار کردہ رپورٹس جنکی copies کسی بھی بورڈ ممبر کو نہیں دی جاتی پڑھکر سناتا ہے جسکے بارے خدا جانے یا تیار کرنے والے یا پھر وہ پڑھنے والا کہ وہ صحیح پڑھ بھی رہا ہے کہ یہاں صرف ایک نقطہ کے اضافہ سے محرم کو مجرم بنا رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسطرح کا کھیل عمران خان حکومت کے دور میں اسکے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی ایماء￿  پر کھیلا گیا تھا جب اس نے اپنے بھائی کو پروموٹ کروایا تھا اور اسی طرح کی بازگشت اس سی ایس بی کے متعلق بھی سنی جا رہی ہے جب پرنسپل سیکرٹری تو نہیں لیکن اس ضمن ایک اور طاقتور شخصیت جو آجکل بیوروکریسی کو کنٹرول کرتی ہے کا نام سامنے آ رہا ہے۔ اب یہ وزیراعظم پر ہے کہ وہ اس الزام جسے بیوروکریسی میں قتل عام یا میرٹ کی موت کا نام دیا جا رہا ہے اسکے متعلق اصل حقائق جاننے کیلیئے کیا اقدام اٹھاتے ہیں۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن