کیلیفورنیا میں آگ کا برہنہ رقص


ٹی ٹاک 
طلعت عباس خان 
ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail.com 

 مشہور امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہرہ آفاق شہر لاس اینجلس کی لگی آگ کے شعلے گیارہ جنوری 2025 کو بلند ہوئے یہ آگ ایک ہفتے تک بے قابو رہی۔ اس دوران تیز ہواں کی وجہ سے آگ رقص کرتے دکھائی دی۔ اس آگ سے ہر چیز جل کر راکھ ہو گئی۔ پندرہ کے قریب انسان جل گئے، جنگلی جانور مین روز پر شفٹ ہو گئے۔ یہاں امیر ترین لوگ رہتے ہیں جہاں بچوں کے اسکول لائبریریاں شاپنگ سینٹر عمارتیں پٹرول پمپ ،انسان جانور چرند پرند۔قیمتی گاڑیاں جل کر اب تک خاک ہو چکی ہیں۔ آگ کی وجہ جاننے کیلیے ایک ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو پتہ چلائے گی کہ اس ایریا میں آگ کیسے لگی؟ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ اگ کسی انسان نے جان بوجھ کر لگائی تھی۔ کسی کا کہنا ہے یہ آگ ایک پرندہ نے لگائی ہے جس کا ذکر چودہ سو سال پہلے آچکا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جو کچھ فلسطین میں اسرائیل نے امریکہ کے تعاون سے ظلم برپا کر رکھیں ہیں یہ اس کا نتیجہ ہے!! کچھ اسے قدرتی افات کے نام پر پیغام دیا گیا ہے۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں…ہم تو اس کے قائل ہیں
 دشمن مرے تے خوشی نہ کرئے
 سجنا وی مر جانا اے
 امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے۔امید تو ہے وہ اس آگ کا کھوج لگا لے گی۔ اس سے پہلے بھی اسی شہر میں آگ اپنا رقص دکھا چکی تھی مگر اب کی بار یہ سب سے بڑی آگ کہلاتی ہے۔جس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔اس علاقے میں جس کا بھی نقصان ہوا ہے انہیں انشورنس، کی وجہ سے مالی نقصان تو نہیں ہو گا مگر ذہنی جسمانی نقصان ضرور ہوا ہو گا۔ لاس اینجلس خوابوں کا دیش کہلاتا ہے۔ یہ امریکی فلم انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے یہاں لاتعداد بنگلے ہیں۔لیکن اب یہ سب کچھ راکھ میں بدل دیا گیا ہے۔ دنیا میں شدید آگ مختلف ملکوں کے شہروں میں لگ چکی ہے۔امریکا میں بھی اگ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1871میں ریاست میشی گن میں دنیا کی ایک بڑی اگ لگ چکی ہے۔ اس کے علاوہ 1933 میں بھی لاسانجلس میں بھی بڑے پیمانے پر اگ لگ چکی ہے۔اس اگ میں 29 فائر فاٹر اگ ہر قابو پاتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھی کیلیفورنیا میں اگ کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ کیلیفورنیا کے اسی شہر میں لاس اینجلس میں دوہزار سات میں دس لاکھ ایکڑ رقبہ پر اگ لگی تھی۔ جس میں پندرہ سو مکانات اگ کی نظر ہوئے تھے۔لیکن موجودہ لگی اگ سب سے خوفناک تھی۔ اسی طرح کی ایک خوفناک اگ 1944 میں بھارت کے شہر بمبئی میں لگی تھی جس میں ایک ہزار لوگ اگ سے جل گئے تھے۔ اسی طرح کی ایک اگ فرانس میں 1949 میں لگی تھی جو سات سو مربع میل تک پھیلی تھی۔ اس اگ سے تیرہ سو عمارتیں جل کر تباہ ہوئی تھیں۔اس آگ سے ہزاروں لوگ بے گھر یو گئے تھے۔1835 میں نیویارک میں بھی ایک اگ لگی تھی جس سے یہ شہر جل کر راکھ میں بدل گیا تھا۔ پاکستان میں بھی چھوٹے پیمانے پر کراچی کی غریبوں کی جھوپڑیوں میں آگ لگی تھی۔ البتہ پاکستان کے کارخانوں میں آگ لگتی نہیں لگائی جاتی ہے۔ان میں ایک آگ کراچی کے کارخانے میں مزدوروں سمیت بھتہ خوروں نے لگائی گئی تھی۔یہاں قدرتی آفات زلزلے اور سیلاب کی شکل آتے رہتے ہیں۔اسی طرح قدرتی آفات دنیا ساری میں اکثر آتی رہتی ہیں جو نشان عبرت چھوڑ جاتی ہیں۔۔ ہمارے ہاں قدرتی آفات زلزلے اور سیلاب کی شکل میں آتی رہی ہیں۔ ان آفات کے وقت ساری قوم یکجا ہو کر انکی مدد کرنے اٹھ کھڑی ہوتی ہے لیکن امریکہ میں جہاں یہ اگ لگی ہے وہاں لوٹ مار کی وجہ سے انہیں کرفیو لگانا پڑ گیا وہاں کی عوام نے اس مشکل گھڑی میں لوٹ مار کرنا شروع کی جس جگہ یہ آگ لگی ہے جب میں نیویارک سے ہالی وڈ ڈزنی لینڈ لاس ویگس دیکھنے گیا تھا تو کچھ دن لاس اینجلس میں بھی گزارے۔ اس ایریا میں ہالی وڈ کے اداکار آٹسٹ امیر ترین لوگ رہتے ہیں۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ آگ لگائی گئی ہے یا قدرتی افات کا نتیجہ ہے۔اس آگ کو ہم قدرتی آفات کا نام دے سکتے ہیں۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ اس مشکل گھڑی میں ہم سب ان کے دکھ نقصان میں برابر کے شریک ہیں۔ جو کچھ فلسطین میں قیامت بھرپا ہے یہ آگ انسانوں کا نہیں قدرت کا غصہ بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا میں اس وقت جان بوجھ کر ایک اگ ایک سال سے فلسطین میں اسرائیل نے لگا رکھی ہے۔ یہ روز فلسطین پر بارود برساتا ہے روز عورتوں نوجوانوں بزرگوں کو شہید کرتا ہے۔ اس کا بدلہ کسی نے تو دینا تھا۔ گو کہ یہ ان کے ل? آٹے میں نمک کے برابر نقصان ہے دنیا کے بڑے بڑے ممالک نے ان فلسطینوں کے مارنے کیلئے اسے اسلحہ دے چکے ہیں۔ دہشتگردوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں جو دوسرے ممالک میں جا کر خود کش حملے کرتے ہیں۔ جو لوگ ایسے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے قدرت ان کے لئے قدرتی آفات لے کر اتی ہے۔ جیسے اسلام میں اوٹنی کا واقع مشہور ہے جب ظالموں نے اس اوٹنی پر ظلم کرنا بند نہ کیا تھا تو قدرت نے اس ابادی ہر پتھروں کے اولے برسائے تھے۔ جس سے وہ بستی والے مارے گئے اور بستی تباہ ہو گئی تھی۔ امریکہ نے جب ظالم اسرائیل کا ساتھ دیا فلسطینوں کو ان کے ظلم سے بچایا نہیں تو قدرت نے غصے میں امریکہ کے سب سے زیادہ خوشحال جہاں امیر ترین لوگوں کو بے گھر کر دیا ہو۔ان کی اپنی عوام نے اس مشکل گھڑی میں ان کی مدد کرنے کے بجائے وہاں لوٹ مار کی۔ وہاں مارشل لا نہیں تھا مگر کرفیو لگا۔ اربوں کھربوں کا نقصان بغیر کسی بمباری کے ہوا۔ امریکا پر اب مشکل حالات دکھائی دے رہے ہیں اسی ہفتے امریکی عدالت کا فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے سے پہلے ایسا ہی عدالتی فیصلہ آیا ہے جیسے ماضی میں ہماری عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیا کرتی تھی اج ایسے ہی فیصلے ان کے عدالتیں بھی دے رہی ہیں۔ہو سکتا۔ ہے یہ مقافات عمل ہو۔ جس قسم کا لیڈر ہمیں دیا ہے اج ویسا ہی لیڈر ان کو بھی نصیب ہو رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جو دوسروں کے لئے کنواں کھودتا ہے وہ اس میں خود بھی گرتا ہے۔دنیا میں ایک ہی قانون چل رہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھنس۔ اسی قانون پہ ساری دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ برطانیہ کے نجومی نے پیشگوئی کی ہے کہ اس سال تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ یہ جنگ اگر کہا جائے تو چھڑ چکی ہے تو غلط نہ ہوگا کہ فلسطین میں اسرائیل روز نہتے لوگوں کو جان سے مار رہا ہے۔ان لوگوں سے پوچھے تو وہ کہتے ہیں تیسری جنگ ہی نہیں قیامت بھی اچکی ہے۔ دنیا والوں انکھیں کھولو ہوش کے ناخن لو، ظالم کا ساتھ نہ دو، اللہ سے ڈرو،اس کی لاٹھی بے آواز ہے!!

ای پیپر دی نیشن