آج ہی غربت دی چس آئی اے

ٹی ٹاک — طلعت عباس خان ایڈووکیٹ

سترہ اپریل کی صبح چار بجے ملک کے مختلف حصوں میں زلزلہ آیا، جس کی شدت 5.5 ریکارڈ کی گئی۔ یہ زلزلہ ہم نے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی محسوس کیا۔ پھر اسی روز، بارہ گھنٹے بعد شام چار بجے، کالی آندھی کے طوفان کے ساتھ اسلام آباد کے ایف سکس سے ای-الیون اور ڈی-ٹوایف تک شدید ڑالہ باری ہوئی، جس میں کم و بیش پاؤ کے وزن کے برف کے گولے آسمان سے گرتے رہے۔
اگرچہ اسلام آباد میں جانی نقصان نہیں ہوا، مگر بے تحاشا مالی نقصان ضرور ہوا۔ گھروں اور قیمتی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ خاص طور پر شو رومز میں کھڑی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ اسلام آباد کی تاریخ میں اتنے وزنی اولے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ لگتا ہے کہ اللہ یہاں کے انسانوں سے ناراض ہیں۔ اگر اب بھی انسان اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے، تو پھر شاید پتھر ہی گرنا باقی ہے۔
قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے اور توبہ کے دروازے بند ہو جائیں، آؤ! سچے دل سے اپنے گناہوں کی توبہ کریں۔ انسان کو انسان سمجھیں، اس کے کام آئیں، اس کی مجبوری سے پیسے نہ بنائیں۔ خالی ہاتھ آئے تھے، خالی ہاتھ ہی جائیں گے۔
سارے پاکستان میں اس وقت افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ اسلام آباد کے ایک سیکٹر کے سٹور پر چھاپہ مارا گیا اور افغانی مالک کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے سٹور بند کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد وہاں موجود لوگوں نے اس کا سارا سٹور لوٹ لیا۔ جس کے ہاتھ جو لگا، وہ لے اڑا۔
کیا کسی مہذب معاشرے میں اس رویے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کیا پولیس کا کام صرف افغان سمجھ کر گرفتار کرنا تھا؟ کیا بزنس کی حفاظت پولیس کی ذمہ داری نہیں تھی؟ ان کی گاڑیوں، دکانوں، اور پراپرٹی کی حفاظت کا بھی کوئی فرض نہیں بنتا؟
کچھ روز قبل، یہودیوں کے مشروب سے بھرا ایک ٹرک روکا گیا۔ پھر ہر ایک نے مشروب کی بوتلیں لوٹ لیں اور گھروں کو لے گئے۔ مفت کا مال "حلال" سمجھ لیا گیا۔ ایک ریسٹورنٹ، جو غیر ملکی چین تھی، پر بھی حملہ کیا گیا کہ یہ یہودیوں کی فرنچائز ہے، اسے بھی لوٹ لیا گیا۔
کیا احتجاج کا مطلب یہی ہے؟ کیا مطالبات منوانے کے لیے سڑکیں بند کرنا اسلام کی روح کے مطابق جائز ہے؟ ان بندشوں سے نہ مریض اسپتال پہنچ پاتے ہیں، نہ بچے اسکول، کالج جا سکتے ہیں۔ نہ کھانے پینے کی اشیاء   یا ادویات وقت پر پہنچتی ہیں۔ نہ غمی خوشی میں کوئی شریک ہو سکتا ہے۔
اگر احتجاج کرنا ہے تو کسی میدان میں جمع ہو جایا کریں۔ وہاں بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا کریں۔ لوگ خود آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ مگر ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو کسی دوسرے کو نقصان پہنچائے۔ سیاست صرف پیسے بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ احتجاج بھی مفاد کے لیے ہوتا ہے۔ یہ پیسہ کہاں لے جائیں گے؟ یہاں پکڑے نہ بھی جائیں تو مرنے کے بعد ضرور پکڑے جائیں گے۔
اس موقع پر گاؤں کے حجام کی کہانی یاد آ گئی:
ایک گاؤں میں ایک غریب نائی رہتا تھا، جو ایک درخت کے نیچے چادر بچھا کر لوگوں کی حجامت کیا کرتا۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہو رہی تھی۔ نہ گھر تھا، نہ بیوی بچے۔ صرف ایک چادر اور تکیہ اس کی کل کائنات تھے۔ رات کو بند اسکول کے باہر چادر بچھا کر تکیہ رکھتا اور سو جاتا۔
ایک دن صبح کے وقت گاؤں میں سیلاب آ گیا۔ شور و غل میں اس کی آنکھ کھلی۔ وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا۔ وہاں چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا۔
لوگ قیمتی سامان، زیورات، نقدی، بکریاں لے کر بھاگ رہے تھے۔ اسی دوران ایک شخص جو سونا، پیسے اور کپڑے اٹھائے بھاگ رہا تھا، نائی کو سکون سے لیٹے دیکھ کر غصے سے بولا:
"اوئے! ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے، ساڈی جان تے بنی اے، تے تْو ایتھے سکون نال لما پیا ہویا ایں؟"
نائی بولا:
"لالے! اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔"
جب میں نے یہ کہانی سنی، تو پہلے ہنسا، پھر ایک خیال آیا۔
شاید روزِ محشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔
جب سب سے حساب لیا جا رہا ہوگا۔ ایک طرف غریبوں کا حساب — دو وقت کی روٹی، کپڑا، تھوڑے بہت حقوق اللہ و حقوق العباد۔ دوسری طرف امیروں کا حساب — پلازے، دکانیں، فیکٹریاں، گاڑیاں، بنگلے، سونا، زیورات، ملازم، پیسہ، حلال و حرام کا فرق، زکوٰۃ، دکھاوے، اور سب کچھ۔
وہ حساب اتنا طویل اور پیچیدہ ہوگا کہ امیر پسینے میں شرابور، خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوں گے۔ تب شاید وہی نائی جیسے غریب، سکون سے ان سب کو دیکھ رہے ہوں گے، اور دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے:
"آج ای تے غربت دی چس آئی اے۔"

ای پیپر دی نیشن