پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کے کسی نہ کسی علاقے میں تخریب کاری کا کوئی واقعہ پیش نہ آتا ہو۔ ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے اپنے حصے کا کردار تو ادا کر رہی ہیں لیکن کئی ایسے نہ نظر آنے والے مسائل بھی موجود ہیں جو سکیورٹی فورسز کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت کی اپنے ہاں سے پاکستان میں در اندازی کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی پالیسی بھی بہت سے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ افسوس نا ک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو افغان طالبان کی اس پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسے عناصر اپنے ملک کے ساتھ کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ ان کے ان بیانات سے بہت اچھی طرح ہو جاتا ہے جو وہ افغانستان کی طالبان حکومت کے حق میں دے رہے ہوتے ہیں۔ ان عناصر کو اگر پاکستان کا دشمن نہیں بھی کہا جاسکتا تو یہ طے ہے کہ یہ پاکستان کے دوست بھی نہیں ہیں۔
کچھ عرصے سے مذکورہ دونوں صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اتوار کو بلوچستان کے شہر نوشکی میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے قافلے پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خودکش حملے میں 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد شہید اور 12 سے زائد زخمی ہوگئے۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ اطلاعات کے مطابق، دہشت گردوں نے ایف سی قافلے پر بارودی مواد کا دھماکہ اور خود کش حملہ کیا، سکیورٹی فورسز نے حملہ آور دہشت گردوں کے خلاف فوری موثر جوابی کارروائی کی۔ ابتدائی جوابی کارروائی میں خود کش حملہ آور کے علاوہ مزید 3 دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔ واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کلیئرنس آپریشن شروع کر دیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے بھاگنے والے تمام راستے بلاک کر دیے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک کلیئرنس آپریشن جاری رہے گا۔
ادھر، پشاور اور کرک میں دہشت گردوں نے مختلف مقامات پر 5 حملوں میں 3 پولیس اہلکار اور ایک ایف سی گارڈ کو شہید کر دیا جبکہ حملے میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق، ضلع کرک میں دہشت گردوں نے تھانہ یعقوب شہید اور تھانہ حرم پر حملے کیے۔ ایک حملے میں پولیس سب انسپکٹر اسلم نور شہید ہوگئے۔ کرک میں سوئی گیس آفس پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں ایف سی اہلکار شہید ہو گیا۔ اسی طرح، پشاور میں تھانہ مچنی گیٹ اور تھانہ خزانہ کے مقامات پر بھی دہشت گردوں نے فائرنگ کی۔ مچنی گیٹ پر حملے میں پولیس اہلکار نذر علی شہید ہوئے جبکہ پولیس نے فوری جوابی کارروائی کر کے دہشت گردوں کو پسپا کر دیا۔
خیبر پختونخوا ہی میں سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر جنوبی وزیرستان کے دونوں اضلاع میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ ضلع جنوبی وزیر ستان اپر، ضلع جنوبی وزیر ستان لوئر اور ٹانک کے ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے کرفیو کے نوٹیفکیشنز جاری کردیے گئے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق صبح 6 سے شام 6 بجے تک تمام راستے بند رہیں گے۔ زالئی تا نیوکیڈٹ کالج وانا روڈ، تنائی، سرویکئی، جنڈولہ روڈ بند رہیں گی جبکہ وانا گومل زام روڈ کھلی رہے گی۔ احمد وام سے کوٹکئی تک، بی بی رغزئی سے جنڈولہ تک سڑک بند رہے گی۔ مسافروں کو متبادل راستے اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حالات مرکزی حکومت اور اداروں کی نااہلی سے خراب ہوئے ہیں۔ کوئی کارکردگی پر مناظرہ کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔ عہدہ سنبھالتے ہی امن و امان کی صورتحال کی جانب توجہ دی۔ علی امین گنڈا پور مسلسل غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے وفاق اور اپنے صوبے کے درمیان خلیج کو بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اگر ان کے پاس کہنے کو کوئی سنجیدہ بات نہیں ہے تو وہ بیان بازی کی بجائے صوبے کے حالات پر توجہ دیں۔
دوسری جانب، دہشت گردی میں بی ایل اے کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کہا ہے کہ بی ایل اے انٹرنیشنل دہشت گرد تحریک ڈکلیئر ہوچکی ہے اور اس کے تانے بانے ہندوستان اور افغانستان میں ہیں۔ اس کے دونوں ملکوں سے تعلقات ہیں اور اسے وہاں سے اعانت ملتی ہے۔ یہ تحریک کئی سال سے دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے مزید کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعے میں جو دہشت گرد مارے گئے ان کے سامان وغیرہ سے بہت اہم معلومات ملی ہیں جو بلوچستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کے حوالے سے ایک بڑا بریک تھرو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو دہشت گردی کی لہر کچھ دیر سے چل رہی ہے اس پر وزیر اعظم نے کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) کا اعلان کیا ہے۔
خواجہ آصف کا یہ کہنا درست ہے کہ دہشت گردی کے معاملے میں تمام جماعتوں کو غیر مشروط طور پر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے، یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ دہشت گردی کی وارداتیں ایک طرف جانی و مالی نقصان کا باعث بن رہی ہیں تو دوسری جانب ان کی وجہ سے معاشی استحکام کی راہیں مسدود ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی جو کارروائیاں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو رہی ہیں ان کے پیچھے بھارت سمیت کئی اور ممالک کا ہاتھ ہے اور یہ ممالک ہرگز نہیں چاہتے کہ پاکستان کے اندر امن و استحکام آئے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یا اس مسئلے پر حکومت کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے سیاسی تعصبات و اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں۔ سیاسی اختلافات پر عام حالات میں بات ہوسکتی ہے، غیر معمولی حالات میں سیاسی رسہ کشی نہیں ہونی چاہیے۔ وزیراعظم کی طرف سے جو اے پی سی بلائی جا رہی ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو شریک ہونا چاہیے اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے اپنی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرنا چاہیے۔