چرچل، برطانیہ اور لبرل ڈیمو کریسی(1)

دوسری جنگ عظیم کے بعد پرانے بْت ٹوٹ رہے تھے۔ نو آبادیاں آخری سانس لیتے دم توڑ رہی تھیں اور دنیا بھر میں محسوس ہو رہا تھا جیسے ’’سلطانی جمہور‘‘ کا زمانہ آ رہا ہے اور اب ’’کالونیوں، کی لگام ڈالنے والوں کو انسانیت کے آگے ’’باادب، باملاخطہ ہوشیار‘‘ ہونا پڑے گا۔
حالات کے جبر کے تحت انگریز کو بھی اپنے شیڈول سے کہیں پہلے ہندوستان سے بھاگنا پڑا۔ ہر طرف یہ صدائیں بلند ہو رہی تھیں کہ برطانیہ جنگ تو جیت گیا لیکن سلطنت ہار گیا اور وہ سلطنت جہاں سورج دو گھڑی آرام کیلئے غروب ہونے کی کوئی جگہ نہیں پاتا تھا اسے اب طلوع ہونے کیلئے کوئی مقام بھی میسر نہیں تھا۔ 
اس موقع پر ونسٹن چرچل نے ایک دھواں دار تقریر کر ڈالی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہندوستان کے آزاد ہوتے ہی برے اور کج فہم لوگ طاقت کا محور بن جائیں گے اور ہر دم اقتدار کی کرسیوں کا طواف کرتے یہ ’’غرض کے بندے‘‘ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے آپس میں لڑتے پھریں گے اور بس…!
اکثر دانشور آج بھی چرچل کے ان الفاظ کو اہل سیاست پر تبرا کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کئی پڑھے لکھے عام لوگ بھی ’’ہم نوا بن کر کہہ اٹھتے ہیں کہ ’’چرچل صحیح کہتا تھا‘‘۔ ان کی یہ رائے کسی حد تک درست سہی لیکن یہ سوچنا بھی بجا کہ ایسا ماحول کیوں پیدا ہوا کہ چرچل کو یہ کہنا پڑا کیونکہ قدرت کے اس انمول کارخانے میں کوئی بھی کام بے سبب نہیں ہوتا۔
کافی عرصہ گزرا نوآبادیات پر ایک دستاویزی فلم دیکھی تو چودہ طبق بڑے آرام سے روشن ہو گئے کہ انگریز سامراج نے ہندوستان سے 45 ٹریلین امریکی ڈالر کے برابر رقم اور قیمتی اشیاء لوٹیں۔ تھوڑا غور کیا تو معلوم ہوا کہ ’’صاحب بہادر‘‘ کے جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ 45 ٹریلین ڈالر اس کے ’’کارناموں‘‘ کی کتاب کا ایک باب ہیں۔ یعنی جسے محض ایک زخم سمجھا جا رہا تھا وہاں تو ’’رفو‘‘ کا بہت کام نکل آیا۔ 
’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ انگریز سامراج کا چلن ٹھہرا۔ ’’غدر کی ساعتِ ناپاک سے لیکر‘‘ ہندوستان کی مکمل فتح تک اسے ’’گھوڑی پال مربع‘‘ میں بدل دیا اور جاگیریں ایسے پٹھو اور نمک خواروں میں یوں تقسیم کر دیں کہ بقول جون ایلیا ’’دیکھنے والے بھی ہاتھ ملتے تھے‘‘ اور اپنوں ہی میں ’’ریوڑیاں بانٹنے‘‘ والے بھی فخر سے سوچتے تھے کہ وہ تو میرٹ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ایک ایسا لنگڑا لولا نظام انصاف اور بیوروکریٹک نو آبادیاتی سسٹم غلاموں کے منہ پر دے مارا گیا جو ’’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ ظالم لگی ہوئی‘‘ کی طرح ابھی تک جونک کی مانند چمٹ کر خون پینے میں مصروف ہے۔ پٹھو سیاسی نظام تشکیل دینے کیلئے ساری توانائیاں صرف کر دی گئیں اور ’’بیبون‘‘ پیدا کرنے والا ایسا بنجر تعلیمی نظام بھی سامراج کا تحفہ بن گیا جو معاشروں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کی بجائے پاؤں سے گھسیٹ لینے پر زیادہ یقین رکھتا ہے اس لئے سورج نہ ڈوبنے والے اقتدار کے دوران آج کے پاکستانی علاقوں میں صرف ایک ہی یونیورسٹی قائم کرنے کو کافی سمجھا گیا جو کراچی سے خیبر تک ’’علم کی پیاس بجھانے‘‘ کا واحد ذریعہ تھی۔ وہ بھی ایک ایسا ذریعہ جہاں ’’آداب غلامی‘‘ اور بڑے ہوکر سرکار کی خدمت کے گر سکھائے جاتے تھے۔
نوآبادیات کا یہ سارا نظام جبر اور خوف کی بنیادوں پر قائم تھا۔ سیاہ فام فرانسیسی ماہر نفسیات، سیاسی فلسفی اور نو آبادیات کے نظام پر انتہائی گہری نظر رکھنے والے فرانزفینن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب (The Wretched of the Earth)  میں نو آبادیات کے اس بنیادی نکتے کے ڈھول کا پول پوری طرح کھول کر رکھ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’تشدد نو آبادیاتی نظام کا سب سے ’’اہم ہتھیار‘‘ ہوتا ہے۔ ہولناک تشدد اور خوف کی ایسی فضا جس کے ذریعے محکوموں کو انتہائی دباؤ کا شکار بنایا جاتا ہے کہ وہ انتہائی احساس کمتری میں زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ ایسا احساس کمتری جس سے کئی نسلوں تک جان چھڑا لینا ممکن نہیں رہتا‘‘۔ دوسرے لفظوں میں فرانزفینن کی اس بات کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ نئے قانون کی آس میں اعتماد کے ساتھ سڑک پر نکلنے والے ہر ’’منگو تانگے والے‘‘ کو احساس کمتری کے ایسے کوڑے سے مارا جاتا ہے کہ وہ بالآخر پرانے قانون کی دقیانوسیت اوراپنے ’’گھٹیا پن‘‘ کے احساس میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اگر کبھی نیا قانون آ بھی جائے تو بھی وہ ہمارے جیسے معاشروں کی طرح اسے دل سے قبول کرنے سے ہچکچاتا رہتا ہے اور اپنے دل و دماغ کو مسلسل پیغام بھیجتا رہتا ہے کہ ‘‘حقیر کیڑوں کیلئے قانون وہی پرانا ہے‘‘۔
تاریخ کی استاد اور نمایاں مؤرخ رومیلا تھاپر نے سومنات (Somnath) کے عنوان سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ جیسے ’’غلیظ نظریہ ضرورت‘‘ پر عمل کرتے ہوئے کس طرح سومنات مندر کے دروازے غزنی سے لاکر ہندوستان کے مذہبی طور پر پرامن معاشرے میں نفرت اور اختلافات کے بیج بو دیئے گئے۔ ایسے بیج جو آگے چل کر تناور درختوں کا روپ دھار گئے۔
پال کینیڈی کی تصنیف (The rise and fall of Great Powers) اور اندراکانگرس کے رہنما ششی تھرور کی کتاب (An Era of darkness)کا ذکر کئے بغیر تو انگریز سامراج کی کہانی اْدھوری رہ جائے گی۔ جب انگریز ہندوستان آئے تو عالمی برآمدات میں ہندوستان کا ایک چوتھائی سے زیادہ ہی حصہ تھا لیکن جب وہ گئے تو یہی حصہ سکڑ کر تین سے چار فیصد رہ گیا تھا اور ’’سونے کی چڑیا‘‘ کی قدر پیتل کے برابر بھی نہیں رہ گئی تھی۔ کیونکہ اسے صنعتی معاشرہ بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی بلکہ برطانوی سامراج نے ہندوستان کو ایک ’’بلیک ہول‘‘ بنانے کیلئے ’’دشت تو دشت، صحرا بھی نہ چھوڑے‘‘۔ سیاست‘ تعلیم‘ معیشت پر مکمل نکیل ڈالنے کے بعد اپنی لوٹ مار اور خود غرض سوچ کو ’’چار چاند‘‘ لگانے کیلئے ادب اور آرٹ کی غیرجانبداری پر بھی ڈاکے ڈالے گئے کہ کہیں اس راستے سے ہی ’’دھرتی مظلوموں کے پاؤں تلے نہ دھڑکنے لگ جائے‘‘ ایڈورڈ سعید نے اپنی انمول تصنیف (CULTURE and Imperialism) میں کھول کھول کر بتایا ہے کہ کس طرح ادب اور آرٹ کو بھی نو آبادیاتی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔
کواسی کوارٹنگ کی زبردست ریسرچ (The ghosts of Empire) کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے جو یہ بتاتی ہے کہ بنجارہ نو آبادیوں کا بوجھ تو لاد چکا لیکن اس کے باوجود چھوڑے گئے تنازعات ’’دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور ’’سامان سو برس کا ‘‘ بن کر دنیا کو اپنی ہولناکیوں کے گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین ہی کی مثال لے لیں جوآج بھی تیسری عالمی جنگ کیلئے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا کام نہیں ملتا جو انگریز سامراج نے ہندوستان میں انسانیت کو شرمانے کیلئے نہ کیا ہو۔ اقتدار کے لالچ دیکر‘ اشرفیوں کی جھنکار سنا کر ہر طرح رشوت کے بازار گرم کئے گئے۔ تاریخ ابھی تک ’’پلاسی کے میدان‘‘ میں نواب سراج الدولہ کی 80 فیصد فوج اس کے سپہ سالار میر جعفر کا یوں آرام سے خریدا جانا نہیں بھولی۔ اور میر صادق کی خریدو فروخت کون بھلا سکتا ہے جس سے ٹیپو سلطان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ جب تک علامہ اقبال کے یہ الفاظ کہ ’’دکن کا صادق اور بنگال کا جعفر‘‘ ’’ننگِ دین‘ ننگ ملت اور ننگ قوم ‘‘کانوں میں گونجتے رہیں گے۔ رشوت ستانی‘ دھوکے بازی اور مکاریوں کی داستانیں سنائی جاتی رہیں گی۔
کوئی قوم‘ کوئی فرد ماضی کو فراموش کر کے مہذب نہیں کہلا سکتا۔ اور اپنی غلطیوں پر صدق دل سے معافی مانگ کر ہی آگے بڑھا جا سکتا۔ 
انگریز سامراج کے شرمناک کرتوتوں پر جو ادب تخلیق ہوا ہے صرف وہی ان کرتوتوں سے پردہ اٹھانے کیلئے کافی ہے۔ آئیں آج پھر ساحر کی نظم ’’جاگیر‘‘ سے کچھ اشعار سنتے اور ماضی کے سامراج کو سناتے ہیں۔
میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنہوں نے پیہم 
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے۔! 
غدر کی ساعت ناپاک سے لیکر اب تک 
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے
 خاک پر رینگنے والے یہ فسردہ ڈھانچے
 انکی نظریں کبھی تلوار بنی ہیں نہ بنیں
 انکی غیرت پہ ہر اک ہاتھ جھپٹ سکتا ہے
 ان کے ابرو کی کمانیں نہ تنی ہیں نہ تنیں
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن