دنیا میں جنگوں کے اصول بدل چکے ہیں۔ اب قومیں میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ معاشی اور تجارتی میدان میں ایک دوسرے کو شکست دیتی ہیں۔ یہ وہ خاموش جنگ ہے جسے "تجارتی جنگ" کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی جنگ جاری ہے جس کے سپاہی فوجی نہیں بلکہ بینکرز، معیشت دان اور ٹیکنالوجی کے ماہرین ہیں۔ دنیا کی دو عظیم ترین اقتصادی قوتیں امریکہ اور چین ایک ایسی جنگ میں الجھ چکی ہیں جو صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی اثرات بھی مرتب کر رہی ہے۔حالیہ تجارتی جنگ کی ابتدا 2018ء میں ہوئی، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر 360 ارب ڈالر مالیت کی اضافی ڈیوٹیاں نافذ کیں۔ چین نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 110 ارب ڈالر کے ٹیکس عائد کر دیے۔ یوں آغاز ہوا اس عالمی کشمکش کا جس کی گونج صرف واشنگٹن اور بیجنگ تک محدود نہیں رہی، بلکہ پوری دنیا تک پہنچ گئی۔
امریکہ اور چین دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتیں ہیں۔ 2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی معیشت کا حجم تقریباً 9 .27 کھرب ڈالر ہے، جو عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 24 فیصد بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں چین کی معیشت تقریباً 7 17. کھرب ڈالر کے حجم کے ساتھ دوسری بڑی طاقت بن کر ابھر چکی ہے۔ چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت امریکہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں چین کی سالانہ شرح ترقی اوسطاً 8 فیصد سے زائد رہی ہے، جس نے اسے ایک عالمی معاشی طاقت بنا دیا ہے۔
اس جنگ کی نوعیت صرف محصولات تک محدود نہیں۔ دراصل امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی عالمی طاقت کو روکنے کے لیے ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اقدامات کر رہا ہے۔ ہواوے جیسی بڑی چینی کمپنی پر پابندیاں، سیمی کنڈکٹر چپس کی برآمدات روکنا، 5G اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں چین کی ترقی پر قدغنیں لگانا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ 2023ء کے دوران دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری 1.6 کھرب ڈالر تھی، جس میں امریکہ اور چین دونوں سب سے آگے ہیں۔ لہٰذا یہ تجارتی جنگ محض مصنوعات کی لڑائی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمی قیادت کی جنگ ہے۔
دوسری جانب چین، اپنی پالیسیوں کے ذریعے خاموشی سے عالمی اقتصادی نظام کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کا سب سے بڑا منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) ہے، جس کے تحت 150 سے زائد ممالک میں تقریباً 900 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔
اس منصوبے کے ذریعے چین نے ایشیا، افریقہ، اور یورپ تک اپنا معاشی اور سیاسی اثرورسوخ پھیلا دیا ہے۔ آج چین دنیا بھر میں بندرگاہوں، سڑکوں، ریلوے لائنوں، اور توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے اپنا سیاسی اثرورسوخ بھی مضبوط کر رہا ہے۔
اس جنگ کا اثر عالمی تجارتی نظام پر بھی پڑا ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (WTO)، جسے منصفانہ تجارت کے لیے بنایا گیا تھا، اب بے بس ہو چکی ہے۔ امریکہ اور چین جیسے ممالک جب اپنی طاقت کے بل پر فیصلے کرتے ہیں تو عالمی ادارے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ صورتحال انتہائی نازک ہے۔ پاکستان اس معاملے میں خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کی جغرافیائی حیثیت اور چین سے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے چین نے پاکستان میں اب تک تقریباً 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان امریکہ اور مغربی ممالک کا بھی اہم اتحادی ہے، جہاں سے گزشتہ دہائی میں تقریباً 12 ارب ڈالر کی مالی معاونت ملی ہے۔ اس توازن کو برقرار رکھنا پاکستان کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔
ا?ج پاکستان کا بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جبکہ ہماری سالانہ برآمدات صرف 30 ارب ڈالر تک محدود ہیں۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ ہم خود کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے قرضوں کی وجہ سے ہماری قومی پالیسیاں بھی غیر ملکی اثرات کی زد میں آتی ہیں۔ یوں ہم اپنی خود مختاری اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کھوتے جا رہے ہیں۔
یہ تجارتی جنگ صرف معیشت ہی نہیں بلکہ سیاسی توازن کو بھی تبدیل کر رہی ہے۔ روس، سعودی عرب، بھارت اور ایران جیسے ممالک نئی صف بندیاں کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اب ڈالر کے بجائے چینی یوآن اور دیگر کرنسیوں میں تجارت کرنے کا سوچ رہا ہے۔ روس اور چین توانائی کے معاہدے یوآن میں کر رہے ہیں۔ بریکس (BRICS) جیسا گروپ، جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں، اب مزید ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کر رہا ہے۔
حالیہ بریکس اجلاس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران اور مصر کی شمولیت کا اعلان ہوا، جو عالمی نظام میں بڑی تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔ اس تنظیم کا مقصد عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کی بالادستی ختم کرنا ہے۔ اسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور آسیان (ASEAN) بھی نئی عالمی صف بندیوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان جیسے ملکوں کے لیے اس عالمی کشمکش میں واضح موقف اپنانا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم مستقل طور پر غیر ملکی قرضوں اور امداد کے محتاج رہیں گے یا اپنی معیشت اور صنعت کو مضبوط کریں گے۔ ہمیں اپنی زرعی پیداواری صلاحیت بڑھانے، ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے، اور تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
اب وہ وقت آگیا ہے جب ہمیں معاشی خودمختاری کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔ ہمیں قومی سلامتی کے نئے تصورات میں معاشی خودکفالت کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ اگر ہم نے یہ فیصلے نہ کیے تو ہم معاشی اور سیاسی غلامی کے ایک نئے دائرے میں داخل ہو جائیں گے۔
تجارتی جنگ صرف طاقتوروں کی جنگ نہیں، بلکہ اس میں وہی قومیں سرخرو ہوں گی جو اپنا راستہ خود چنیں گی۔ آج اگر ہم اس بدلتے ہوئے عالمی نظام کو سمجھ کر اقدامات نہیں کریں گے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی قسمت خود لکھیں، ورنہ دوسروں کی لکھی ہوئی تقدیر پر چلنا ہمارا مقدر بن جائے گا۔
یہ جنگ عالمی نظام کو تبدیل کرنے والی ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم تاریخ کے اس اہم موڑ پر فاتح بننا چاہتے ہیں یا صرف تماشائی۔
یہ تجارتی جنگ درحقیقت قوموں کی روح، عقل، اور اختیار کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہے۔ یہ صرف کسٹم ڈیوٹی یا ٹیکس کی لڑائی نہیں، یہ اس بات کا فیصلہ ہے کہ آئندہ نسلیں کس کے بنائے ہوئے اصولوں کے تحت جئیں گی۔ وقت کی آواز ہے کہ ہم خواب سے جاگیں، اور وہ قوم بنیں جو تاریخ لکھتی ہے، نہ کہ جس پر تاریخ لکھی جاتی ہے۔