فرقان کاظم
Malikfurqankazim@gmail.com
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئے حاضر ھوا،
قابلیت پوچھی گء، کہا ،سیاسی ہوں۔۔(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،
اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا.۔چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،
اس نے کہا "نسلی نہیں ھے"بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،،اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگء تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے.
مسئول کو بلایا گیا،
تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟اس نے کہا،جب یہ گھاس کھاتا ھیتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے
جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لیکر سر اٹھا لیتا ھے.بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا.
اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،اس نے کہا.
طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،"بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بجھا،
معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئی تھی،چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا.بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،"اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے،بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں.
ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا.کچھ وقت گزرا،
"مصاحب کو بلایا،""اپنے بارے دریافت کیا، مصاحب نے کہا، جان کی امان،
بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:
"نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے"بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،
سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے"تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا۔بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا،
"تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟
اس نے کہا،"بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،،لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں
"یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں "
کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے.
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔۔۔
عادات، اخلاق اور طرز عمل۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں ..آج کے دور میں جب ظاہری شوبز، عہدے، اور سوشل میڈیا کی چمک دمک انسان کی پہچان بن چکی ہے، ایسے میں اصل شخصیت کو پرکھنے کا معیار پھر بھی وہی پرانا ہے: "عادات اور اخلاق"۔ چاہے کوئی بزنس مین ہو، سیاستدان ہو، یا عام انسان — اگر اس کے اندر عاجزی، شفقت، سچائی، اور انصاف جیسی صفات موجود نہیں تو وہ بڑے سے بڑا عہدہ بھی اس کی شخصیت کو معتبر نہیں بنا سکتا۔ اس کہانی میں بادشاہ کے مختلف کرداروں سے یہی سبق ملتا ہے کہ تربیت اور اصل مزاج وقت کے ساتھ سامنے آ جاتا ہے، چاہے کتنا ہی چھپایا جائے۔تعلیم و تربیت کے میدان میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ ایک طالبعلم کی اصل ذہانت اور سیکھنے کی صلاحیت اس کے نمبر یا گریڈز سے زیادہ اس کی سوچ، رویے اور رویے سے ظاہر ہوتی ہے۔ استاد چاہے جتنا علم دے دے، اگر شاگرد کا ذہن اور عادت سیکھنے کی نہ ہو، تو علم کبھی اس میں رچ بس نہیں سکتا۔ جیسے وہ غیر نسلی گھوڑا گائے کی عادتوں کے ساتھ پلا، ویسے ہی آج کا طالبعلم اگر صرف رٹے پر انحصار کرے اور تجسس پیدا نہ کرے تو وہ کبھی بھی اصل فہم حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح قیادت کے شعبے میں بھی اصل لیڈر وہی ہوتا ہے جس کی عادات میں لوگوں کی بھلائی، نرم دلی، اور فیاضی ہو۔ وہ لیڈر جو صرف اقتدار کے زور پر حکمرانی کرے، آخرکار اس کی شخصیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے، اور عوام جان جاتی ہے کہ آیا یہ کوئی خدمت گزار ہے یا اقتدار کا پیاسا۔ کیونکہ انسان جتنا بھی بناؤ سنگھار کر لے، اس کی عادتیں، اس کی نسل، تربیت، اور اصل مزاج کو چھپا نہیں سکتیں — اور یہی سچائی ہے جو ہر زمانے میں قائم رہی ہے۔