ایم پی سکیل تعیناتیاں اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن

کامیاب معاشرے انصاف اور شفافیت کی بنیاد پر پنپتے ہیں۔ شہریوں کو جان و مال کا تحفظ اوریکساں مواقعوں کی فراہمی یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر سرکاری اداروں میں ملازمتوں کی فراہمی ممکن نہ ہو تو پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے اداروں کو ساز گار ماحول بہم پہنچانا بھی ریاست کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ عوام الناس اپنی تعلیم اور تجربے کے مطابق روز گار حاصل کرکے جہاں ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں وہاں اپنے خاندان کی کفالت بھی یقینی بناسکیں۔ اگر سرکاری اداروں میں بھی روزگار اور ملازمتوں کی فراہمی کو یکساں مواقع میسر نہ ہوں اور نہ ہی نجی ادارے اس قابل ہوں تو پھر عوام الناس غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو جاتی ہے جس سے معاشرے میں انارکی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسے میں مختلف حکومتی ادارے اور بیورو کریسی ہر ممکن کوشش کرکے ملک میں گورننس  بہتر بنانے اور پھر اُسے برقرار رکھنے میں اپنا کردار اداکرتی ہے۔ ملازمین میں اپنے اپنے اداروں کے حوالے سے ایک خاص قسم کی  Ownness یعنی  پسندیدگی ہوتی ہے اور وہ شبانہ روز محنت کرکے اپنے اپنے اداروں کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ متعین کردہ مقاصد کا حصول اور معیار برقرار رکھ سکیں۔ جواباً وہ ادارے اپنے ملازمین کی گرومنگ ، ترقی اوراُن کے لئے  دیگر ملازمتی فوائد یقینی بنا کر اُنہیں معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے میں اُن کی مدد کرتے ہیں۔
بہت سے محکموں میں بہر طور دیکھا گیا ہے کہ سالہا سال متعدد آسامیاں خالی رکھی جاتی ہیں اور اُن پرنہ تو محکمانہ پروموشن کے ذریعے اور نہ ہی آئین ِ پاکستان کے تحت ان آسامیوں کو مقابلے کے ذریعے پُر کیا جاتاہے جس سے یقینا اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ سنٹرل بورڈ آف فلم سنسرزملک کا ایک اہم ادارہ ہے جو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے خدمات سرانجام دے رہا ہے لیکن عرصہ دراز تک چیئرمین فلم سنسر بورڈکی آسامی کو ایک سیاسی پوسٹ کے طور پر استعمال کیاگیا ہے۔ ہر آنے والی حکومت  سیاسی بنیادوں پر کسی شخص کو چیئرمین تعینات کرکے کام چلاتی رہی ہے۔ قابلِ ستائش امر ہے کہ  حکومت مختلف آسامیوں کو باقاعدہ اشتہار دے کر اہل اُمیدوار تلاش کرنے کی سعی کر رہی ہے۔ حال ہی میں یعنی ِ نومبر میں ایک اشتہار دیاگیا ہے جس میں چیئرمین سی بی ایف سی کے لئے کسی اہل اُمیدوار کی تلاش ہے۔ کامیاب اُمیدوار کی تعیناتی 3 سال کے لئے ایم پی ٹو سکیل میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کی جائے گی۔دسمبر2019 میں بھی اسی آسامی کے لئے ایک اشتہار دیاگیا تھا اور چیئرمین کو بیسیویں گریڈ میں بھرتی کیا جانا تھا۔ اُس اشتہار میں بھی یہ آسامی کنٹریکٹ کی بنیاد پر پُر کی جانی تھی۔ قابلِ فکر امر ہے کہ اگر چیئرمین کی آسامی 20 گریڈ کی ہے تو اس آسامی پر ایم پی ٹو سکیل میں کیونکربھرتی کی جارہی ہے۔اس20 گریڈ کی ویکنسی کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں کیوں نہیں بھجوایاجارہاہے۔20ویں گریڈ کی آسامی کا کبھی کنٹریکٹ پر اور کبھی ایم پی ٹو سکیل کے اشتہارات دینے سے عوام میں عمومی تاثر یہ بہرطور جاسکتا ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں آسامی بھجوانے سے بوجوہ گریز کیاجاتا ہے کیونکہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن جیسے بھی حالات ہوں بندہ میرٹ پر ہی سلیکٹ کرتا ہے اور سو فیصد میرٹ پر ہونے کی صورت ہی میں کسی اُمیدوار کی تعیناتی کی سفارش کی جاتی ہے۔ فلم سنسرز بورڈ کے لئے غالباً 2004 میں وائس چیئرمین فلم سنسربورڈ کی آسامی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مشتہر کی گئی تھی۔ اُمیدواران کی پری سلیکشن سکروٹنی بھی ہوچکی تھی لیکن بعد میں محکمے نے اپنے حق استعمال کرتے ہوئے ایف پی ایس سی سے وہ آسامی ہی واپس لے لی۔ یوں ایف پی ایس سی نے ایک خط کے ذریعے متعلقہ امیدواروں کو آگاہ کردیا کہ محکمہ نے ویکنسی واپس لے لی ہے۔ لہٰذا ریکروٹمنٹ منسوخ کی جاتی ہے اور ملازمین اپنی جمع کرائی گئی فیس سٹیٹ بنک سے واپس لے لیں۔
یہ صرف ایک مثال ہے وفاق کے تحت متعدد محکمہ جات میں اُنیس، بیس اور اس کے  اُوپر گریڈز کی آسامیاں خالی پڑی ہوتی ہیں لیکن اُن پر تعیناتیوں کے لئے ایف پی ایس سی کو کیس نہیں بھجوائے جاتے کیونکہ ویکنسیاں ایف پی ایس سی میں جانے کی صورت میں محکموں، منسٹری یا کسی بھی قسم کی دیگر مداخلت کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں اور ایف پی ایس سی طے کردہ میرٹ کی بنیاد پر اپنی مرضی سے کسی بھی اُمیدوار کو سلیکٹ کرکے اُس کی تعیناتی کی سفارش کردیتا ہے۔دوسری صورت میں مختلف ویکنسیوں پر من پسند لوگوں کی تعیناتی کے راستے کھل جاتے ہیں اور ایم پی ون، ایم پی ٹو اور ایم پی تھری تعیناتیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ الغرض کسی بھی ایسی ویکنسی پر ایم پی سکیل میں تعیناتی نہیں ہونی چاہئے جس کے لئے حکومت ِ پاکستان کے پاس باقاعدہ اپرووڈ ویکنسی موجود ہو اور اُس پر ایف پی ایس سی کے ذریعے تعیناتی کروائی جاسکتی ہو۔ 
ایم پی سکیل پرتعیناتی صرف اس صورت میں ہونی چاہئے جب وہ آسامیاں محدودمدت کے منصبوں کے لئے ہوں اور خالصتاً عارضی بنیاد وں پر ہوں یا پھر کسی ایسے محکمے کے لئے ایم پی سکیل تعیناتی عمل میں لائے جائے جہاں ویکنسی موجود نہیں ہے اور کسی شعبے کے لئے کوئی ایکسپرٹ اور تجربہ کار افسر درکار ہے تو ایسی صورت میں ایم پی سکیل تعیناتی عمل میں لائی جائے۔ اگر مختلف محکموں میں عرصہ دراز سے خالی آسامیاں ہیں تو اُس پر تعیناتیوں کے لئے صرف ایف پی ایس سی کے ذریعے تعیناتیوںکو فروغ دیا جانا چاہئے تاکہ ملک بھر سے اُمیدوار اُس پر اپلائی کریں اور میرٹ پر ملازمتیں حاصل کرسکیں۔ اگر تعیناتیاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن جیسے داروں کے ذریعے نہیں ہوں گی تو پھر اقرباء پروری، سفارش کلچر فروغ پائے گا۔ جو پہلے ہی بہت سے اداروں کی جڑیں کھوکھلی کرچکا ہے۔ ایف پی ایس سی بہر حال ملک کا ایک مؤثر ادارہ ضرور ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے آج بھی کسی غریب ترین گھرانے اور پسماندہ ترین علاقوں سے بچے میرٹ پر  سول سروسز کا امتحان پاس کرکے ایڈمنسٹریٹو سروسز ، پولیس اور فارن سروسز سمیت دیگر شعبوں میں تعینات ہوتے ہیں۔ ایسے افسران جو خود میرٹ پر آتے ہیں وہ پھر اپنی سروس کے دوران ہمیشہ میرٹ کلچر کو پروموٹ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ تعیناتیاں میرٹ پر ہی عمل میں لائی جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف میرٹ کو فروغ دے کر ہی اداروں اور ملک کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے لہٰذا وفاق کی سطح پر خالی آسامیوں کی تعیناتی فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبائی سطح پر متعلقہ پراونشل پبلک سروس کمیشنز کے ذریعے تعیناتیاں یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے تمام شہریوں کو ملازمت اور روزگار کے یکساں مواقعوں کی فراہمی کے وژن کو تقویت مل سکے اور ادارے مضبوط ہو سکیں۔

ای پیپر دی نیشن