اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

آج ناجانے کیوں مہتاب رائے تاباں یاد آئے بہت یاد آئے۔ رائے صاحب کی نظم کا مقبول شعر آج کے حالات کی جامع عکاسی کر ریا ہے ، یہ شعر نہیں ہمارے حالات کا نوحہ ہے!! 
دل کے پھپولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
 اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
رمضان کے مبارک مہینے میں شیطان تو قید ہو جاتا ہے مگر ہمارے یہاں'' شیطان'' بارہ مہینے کام کرتے رہتا ہے تاکہ ابلیس اپنے اپ کو اکیلا نہ سمجھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس مہینے میں شیطان قید ہو جاتا ہے مگر انسان شیطان کا کام کرتے ریتے ہیں۔ یہ انسان وہ ہیں جو موت سے ڈرتے ہیں مگر خدا سے نہیں۔ لہزا ہمیں اس مبارک مہینے میں بھی شیطان سے زیادہ برے کام انسان کے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے قصور وار ذمہ دار آپ میں اور ہمارا یہ سسٹم ہے۔ یہاں مجھے ڈسٹرک جج صباح محی الدین کی یاد آگئی۔  مرحوم نہایت دیانتدار دلیر جج تھے۔ اسلام اباد سے ریٹائر ہوئے۔ بطور چیرمین ینگ لائر فورم کے ہم نے انکی ریٹائرمنٹ پر ہائی ٹی دی تھی۔ان سے قربت تھی۔ میں نے انہیں ریٹائر منٹ کے بعد مالی طور پر پریشان دیکھا۔ ایک روز  سپریم کورٹ بار میں ملنے تشریف لائے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے بنک  لاکر میں رکھے پرائز بانڈ چوری کر لئے گ? ہیں، تمام لیگل طریقوں سے کوشش کر چکا ہوں مجھے مل جائیں مگر ناکام ہوں، پلیز مدد کریں۔ یہ سن کر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس جج نے ساری زندگی دوسروں کو انصاف دینے میں گزار دی ہو اور وہ اب خود انصاف کی تلاش میں ہے۔اب آپ اس مبارک مہینے میں کچھ روز قبل دنیا  چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ دعا ہے اللہ ان کی منزلیں آسان کرے۔ معلوم نہیں ہم کیا کیا دیکھیں گے۔تین روز قبل بلوچستان میں وہ کچھ دیکھ چکے ہیں جسے دنیا میں اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا اس سے قبل ان دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو شہید کیا تھا۔اب ان دہشت گردوں نے بلوچستان میں جعفر ٹرین کو اغوا کیا کچھ مسافروں کو شہید کیا۔ ان مسافروں میں فورسز، کے جوان تھے۔ پھر پاک فوج کے جوانوں نے مسافروں کو ازاد کرایا۔ سب سے پہلے اس خبر کو انڈیا کے میڈیا نے ہائی لائٹ کیا جو کچھ یہ دکھا رہے تھے وہ یہاں کے سین ہی نہیں تھے۔انکی اپنی فلم کے سین تھے لیکن اس دہشت گردی کے پیچھے یہی بھارتی اورافغانی تھے۔ ان کے ساتھ کچھ غیر ملکی دوسری قوتیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اس سے پہلے بھی بلوچستان میں یہی دہشتگرد بسوں سے مسافروں کو چن چن کر شہید کر چکے تھے۔ ان دہشت گردوں کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوتی۔ ان کا کام بے گناہ لوگوں کو جان سے مارنا اور خوف پھیلانا ہے۔ تانکہ بلوچستان زمینی سفر سے کٹ جائے۔کہا جاتا ہے یہ دہشت گرد وہی ہیں جن کو روس کی جنگ میں افغانستان کو تیار کر کے ہم دیا کرتے تھے جس سے روس ہارا اور افغانستان یہ جنگ جیتا تھا۔ یہ جنگ دراصل روس اور امریکا کی جنگ تھی ہم نے امریکہ کا اس جنگ میں ساتھ دیا تھا۔دہشتگردی کی فیکٹریاں لگائیں تھیں جن کے ثمرات  اب مل رہے ہیں۔ مسنگ پرسن بلوچستان کا بڑا مسئلہ بن چکا ہے اس کے لئے ضرورت کمشن کی نہیں ریسرچ کرنے کی  ہے کہ کس نے ایسا کرنا کا کہا تھا کہ ان بلوچوں کے خلاف مقدمات درج نہ کرو خفیہ جیلوں میں انہیں قید رکھو۔  یہ طریقہ غیر قانونی ہے۔ اب اس طریقیپر عمل کرنا ختم کردیں بہتر ہو گا انہیں ازاد کریں یا ان پر مقدمات بنائیں۔ ایسا نہ کرنے سے ادارے بد نام ہوئے ہیں۔نفرتیں پھیلیں ہیں۔ فوری مسنگ  پرسن کا کمشن ختم کریں۔عدالتی نظام میں بہتری لائیں۔بلوچستان قیمتی معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے۔ جس پر تمام بڑی طاقتوں کی نظریں ہیں۔ چین نے گوادر کی بندرگاہ پر انوسیمنٹ کر رکھی ہے۔ دوسرے ممالک  ایسا نہیں ہونے دے رہے۔ یہ مقامی بلوچی وڈیروں کی جنگ نہیں ہے۔ یہ جنگ قیمتی زخائر پر قبضے کی جنگ ہے۔ ہماری پالیسیاں اپنی نہ ہونے سے ہم اندورنی طور پر کمزور ہیں۔ کاش ہم مشرقی پاکستان کے سانحہ سے سبق سیکھنے تو یہ دن ہمیں نہ دیکھنے کو ملتے۔ سبق دینے والے ادارے اس قابل نہیں تھے کہ یہ ان زمہ داروں کو سزائیں دیتے جن کی بدولت ملک دو لخت ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے اگر حکمران جمہوری طریقے سے اتے رہتے اور غباروں میں ہوا نہ بھرتے  تو حالات اس نہج تک نہ پہنچ پاتے۔ جرنیلوں نے جمہوری اور عدالتی نظام کو چلنے نہ دیا ان سے غلط کام کسی کے کہنے پر ان سے لیتے رہے۔ ایسے کرداروں کو سزائیں دی جائی تو موجودہ نطام پر انگلیاں نہ اٹھتی اور دہشتگردی کے واقعات رک جاتے۔ اس گھر کو آگ لگی اس گھر کے چراغ سے کہا جا? تو غلط نہ ہوگا۔ہمارے سسٹم کو گھر سے نہیں باہر سے چلایا جاتا ریا ہے۔ اس ملک میں حکمران آمر ہو یا جمہوری دونوں کو فارن کی طاقتیں لاتی رہی ہیں جو ان سے اپنی مرضی سے کام لیتے رہے اور پھر انہیں مختلف طریقوں سے جان سے مار کر ان سے نجات حاصل کرتے رہے۔ ابھی تک ہم وزیراعظم لیاقت علی خان، صدر جنرل ضیاالحق، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزائیں نہیں دے سکے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملک کا سسٹم چلانے والے ہم نہیں غیر ہیں۔اگر ایسا ہے تو پھر اتنی بڑی دہشت گردی کا پتہ لگانا انہیں ختم کرنا ممکن  نہیں۔اس وقت ہر  جگہ اداروں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جو سسٹم کو چلانے میں دشمن کا ساتھ دیتی ہیں۔انہیں نکال باہر کریں۔سسٹم کو خود چلائیں۔ ہمارا بطور مسلمان کردار بھی ٹھیک نہیں بلکہ بہت برا ہے۔ ہم عبادات تو کرتے ہیں مگر سنت نبوی  پر عمل نہیں کرتے۔بابا کرمو بتاتے ہیں کہ جاپان کے لوگ  اسلام کے بارے میں کوئی کم علم  رکھتے ہیں۔بابا کرمو کہتے ہیں میں رمضان میں ایک جاپانی سے ملا۔ میں اس روز روزہ سے تھا۔ مجھے جب اس نے کھانے کو کچھ پیش کیا تو میں نے بتایا میرا روزہ ہے۔جاپانی نے پوچھا: "روزہ کیا ہوتا ہے؟" میں نے بتایا رمضان مسلمانوں کا اسلامی مہینہ کہلاتا ہے۔ جس میں ہمارے کانوں آنکھوں، زبان اور کھانے پینے ہر چیز کا روزہ ہوتا ہے۔ ہمارا کھانے پینے کا "روزہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک رہتا ہے اس دوران ہم کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں۔" جاپانی بولا: " مگر تم چھپ کر تو کھا پی سکتے ہو۔"میں نے کہا نہیں۔ "چاہے کوئی ہمیں دیکھے یا نہ دیکھے، خدا تو ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ پھر مرنے کے بعد ہمارا حساب ہو گا ہم سے پوچھا جائے گا کہ دنیا میں تم کیا کچھ کرتے رہے ہو پھر وہ اس پر جزا اور سزا ہمیں ملے گی" یہ سن کر جاپانی  حیرت سے  کہنے لگا: "تو گویا مسلم ممالک کے تمام مسلمان بھی اللہ کے ڈر سے چھپ کر کچھ غلط کام نہیں کرتے ہو نگے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ایسے میں تو پھر تمام مسلم ممالک میں کوئی جیل کوئی پولیس،کوئی عدالت نہیں ہوگی ، صرف اور صرف امن ہی امن ہوگا! "کیونکہ مسلم ممالک کے جہاں لوگ محض اللہ کے خوف سے چھپ کر بھی کھانے پینے سے گریز کرنے والے رہتے ہوں، وہاں تو پھر کوئی جرم نہیں ہوتا ہو گا!" میں نے کہا نہیں وہاں فرشتے نہیں۔ کچھ نام کے مسلمان بھی رہتے ہیں لہذا یہ بھی سب کچھ ویسا ہی کرتے ہیں جو باقی دنیا کے لوگ کرتے ہیں۔پوچھا ایسا کیوں ہے۔جواب دیا وہاں وہ مسلمان نہیں بستے جو پیارے نبی کی سنت  پر عمل کرتے ہوں۔جو موت سے نہیں اللہ سے ڈرتے ہوں۔ کاش ہم مسلم اسلامی عبادات کرنے کے ساتھ سنت نبوی ? پر عمل بھی کرنا سیکھ لیں!! ہمارا عدالتی نطام  اوپر سے لیکر نیچے تک خراب ہے۔ ہم سب کو اپنے اعمال کرتوت اور عدالتی نطام کو ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر امن ممکن نہیں۔

ای پیپر دی نیشن