ڈاکٹر طاہر بھلر
ٹی وی رپورٹ کے مطابق آج اسرائیل نے شام پر چارسو اسی فضائی حملے کئے ہیں۔ ادھر ترکی نے شام کے ساتھ اپنے بارڈر کھول دیا ہے
تیسری طرف اسلامی سنی جہادی گروپ نے دارلحکومت شام پر قبضہ کا دعوی کیا ہے۔اسرائل نے گولان کے علاقے پر مستقل قبضہ کرنے کے پلان کے تحت بفر زون پر فورا قبضہ کر لیا۔ شام کا اچانک سقوط، ناقبل شکست تصور کی جانے والی ریاستوں اورحکومتوں کے طلسم اور بے پرواہ احساس تخافر کی آمرانہ سوچ کو ایک سخت جھٹکا قرار دیا جا سکتا ہے۔کتنے غور طلب یہ بات ہے کے جب روس نے دو ہزار چودہ میں اپنی افواج اور اسلحہ سے شام کی مدد کی تھی تو چند علاقوں ،،ادلب،، کے سواتمام علاقے شامی حکومت کے تسلط میں آگئے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایسے علاقوں کو بھی بشارل اسد کنٹرول کرتے، چہ جائکہ ان کے پاس ان چندسالوں میں بھی کچھ نہ ہو سکا اور تمام علاقے اب آزاد ہونے جا رہے ہیں یا غیر ملکی تسلط کے شکار۔حیران ہوں کے چون سالہ اسد خاندان کے شام پر حکمرانی کے بعد اس قدر اچانک تختہ ہستی سے مٹ جانا ، ایک المیہ سے کم تو نہیں بلکہ ایک انتباہ کہ جب تک کوئی لیڈر سسٹم میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتا، اقتدار چاہے پچاس سالہ ہو یاپانچ سالہ کوئی فرق نہی پڑتا، دونوں بے بنیاد ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی نظریاتی اخلاقی بنیاد نہیںہوتی۔ صرف جبر حکومت کو دوام نہیں دے سکتا ،عوام کو سہولیات عدل انصاف، روزگار فراہم نہیں ہو گا توکوئی حکومتی تسلط زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا اور نہ وہ ملک یا علاقہ یا گھر بھی ٹوٹ پھوٹ سے نہیں بچ سکتا جس میں ہر کسی و ناکس کو روزگار کی فواہمی سے لے کر انصاف جیسی ینیادی سہو لیات میسر نہیں ہوں گی۔اسی لیے زیادہ تر وہ ممالک جہاں پر آمرانہ حکومتیں قائم ہیں، انہی ممالک میں لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ بنیادی چیزوں کی فراہمی بھی صحح طرز پر مہیا نہیں ہو رہی ہو گی۔ قارئین آج چون سالہ باتھ پارٹی کا شام سے خاتمہ ہوا،آج اسرائیل کے خلاف مزاحتی محور بھی ختم ہوا، اور آج سو سال کے بعد ترکی سلطنت عثمانیہ کے دو بارہ ابھرنے کے آثار پیدا ہوے ہیں۔ شام کا ایک حصہ القائدہ کے پاس، ایک حصہ اسرائل کے گریٹر اسرائل کے پاس ایک حصہ ترکی کے پاس اور روس اور امریکا کی فوجیں مختلف جگہوں پر قابض ہیں۔بشارالاسد آخر تک روس سے مدد مانگتے رہے، نہ انہوں نے مخالف مقامی حریفوں کو در خور اعتنا نہ سمجھانہ ان سے مذاکرات کرنے میں دور اندیشی سے کام لیا بلکہ غلط فہمی اور تصوراتی طور پر پہلے تو روسی مدد کے بعد اپنے تئیں ناقابل شکست گردانتے رہے بعد میں زبردستی بھرتی کیے گئے فوجیوں پر مشمتل کرپٹ افواج پر عدم اعتماد کا شکار ہو کر لڑنے سے انکار کر دیا۔ ان کے والد بھی اپنے تیس سالہ اقتدار میں نظریاتی اصلاحات کرنے ان کو نافذ کر کے عوام تک ان کے فوائد پہنچانے میں قطعی ناکام رہے تھے۔ اسد خاندان عوام کو حقوق دینے میں کسر نفسی لا پرواہی رعونت اور ظالمانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے رہے جو عوام کا تمسخر کرنے کے مترادف ہے جو تمام ڈکٹیٹر حضرات اکثر اقتدار میں کرتے ہیں اب اسرائیل ہوائی حملے کر کے شامی باقی ماندہ اڈے ،باقی اسلحہ اور آرمز کو ختم کر کے چھوڑے گا تا کہ شام کی رہی سہی قوت مدافعت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے اور اسرائیل کے سامنے دو بارہ کبھی سر نہ اٹھا سکے۔ آج لبنان کمزور ہو چکا ہے شام گر چکا ہے عراق بھی بیرونی تسلط کا شکار ہے حماس کوغزہ میں شکست ہو چکی ہے تمام مشرق وسطی اب اسرائل کے آگے نگوں ہو چکا ہے۔ سعودہ عرب اردن پہلے ہی ا مریکی کلب میں سر تسلیم خم کئے ہیں۔ اب
دیکھئے اس بحر سے نکلتا ہے کیا
گھمبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
اسلامی دنیا کی کمزور ی عیاں ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے ایران کی خاموشی اس کمزوری کو ظاہر کر رہی ہے۔ غرض چون اسلامی ممالک ایک اسرائل کے آگے بے بس ہی ہیں۔ ٹیونس میں اکیس سالہ،مصر میںبتالیس سالہ،لیبا میں بتالیس سالہ قدافی دور،،یمن میںتینتیس سالہ، سوڈان میںبائیس سالہ ڈکٹیٹرانہ نظام کا خاتمہ ہوا اور ان حکمرانوں کا صرف اور صرف اقتدار میں رہنے کے لئے عوام کو محکوم بنانے کاعمل دو ہزار گیارہ کے عرب سپرنگ کے بعد پہلے ہی اختتام کو پہنچ چکا ہے آج ان تمام ممالک میں ا فراتفری ہے۔ بظاہر جمہورئت کا آغاز ہے یا امریکی حمایت یافتہ حکمرانوں کا اسلام کے نام پر مسلط شدہ القایدہ کے شدت پسندوں کی حکومت کا آغاز۔یاد رہے ترکی امریکی حمائت سے
اسلامی دنیا کی قیادت کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے جوکولڈ وار کے اختتام کے بعد کے امریکی ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے جس میں سن بیس سو پچاس تک ان کے ناٹو کے ساتھی ترکی کو مسلم دنیا کی قیادت سونپنا ہے نہ کہ اسلحی طاقت آبادی کے لحاظ سے بڑی سلطنت ایٹمی پاکستان کو اور نہ ہی نظریاتی رہنما کے طور پر ایران کو۔قارین اسی لیے جنرل ضیا کو دبا کرپاکستان کو دہشت گردی کے جنگ میں بزور شمشیرشامل کیا گیا تھا اور دہشت گردی کی جنگ اسی کی دہائی میں پاکستان پر مسلط کی گئی تھی جس سے پاکستان معاشی طور پر بلیڈ کرتا رہے اور حالت جنگ میں رہے اور اس کو اس قابل نہ چھوڑا جائے کہ یہ اسلامی دنیا کی قیادت کرسکے۔ ایران کو بھی معاشی پابندیوں کا شکار ، اور تنہا کر کے اسرائیل کو موقع دیا گیا کہ وہ باقی مشرق وسطی کی ریاستوں کا خون بہاتا رہے۔آخری یا دآوری یہ ہے کہ حماس کے اندر سے سی آئی اے کے ایجنٹوں پر حماس کوورغلا کر اسرائل پر حملہ کرنے کی خبریں ہیںورنہ اسرائل اتنا بے خبر کہاں تھا کہ اس کو یہ تک پتہ نہ چلا ہوکے حماس نے حملہ کر دیاہے۔ اس نے یہودی یرغمالیوں کے بہنے حماس پر حملہ کرنا تھا اور اس کے لعد لبنان۔ شام وغیرہ کو شکست دینی تھی۔یہ سب امریکی یہودی سازش کا شاخسانہ ہے جو سقوط شام پر شائد فلحال ختم ہو۔ یہی سی آئی اے کے ورغلانے کی سازش انیس سو نوے میں ڈکٹیٹر صدر صدام کے ساتھ بھی ہوی تھی اور صدر صدام نے کوئت پر حملہ کر دیا تھا جو بعد میں سقوط بغداد پر ختم ہوا تھا۔ بد قسمتی سے صدر صدام نے امریکا کے کہنے پر ہی
اسی کی دہائی میں ایران پر فوج کشی کی ناقابل تلافی غلطی کی تھی۔