نا شکری 

حفیظ اللہ خان 
آج 16 اگست اور جمعہ المبارک ہے کل ہمسایہ ملک نے بھی 78ویں یوم آزادی منائی اس پر آگے میں بات کرونگا اب آجائیں ایک اردو کہاوت کی طرف کہ "گھر کی مرغی دال برابر"ہم سب نے سنا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو چیز یا شخص ہمارے اپنے گھروں میں یا ہمارے نزدیک ہوتا ہے ہم اس کی قدر کم کرتے ہیں اور دوسروں کی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں چاہے وہ حقیقت میں اس کے برابر نہ بھی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی چیزوں کی قدر نہیں کرتا اور دوسروں کی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔دوسری طرف یہ ناشکری کے زمرے میں بھی آتا ہے یاد رکھیں جس نعمت کی ناشکری کی جائے تو پھرقدرت وہ نعمت چھین لیتی ہے۔ 
قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ ہمیں مثالیں دی جاتی تھیں کہ بنگلہ دیش نےبہت ترقی کی ہے وہاں امام، مسجد تک فوج چھاونی تک سیاست دانوں کوایوانوں تک محدود رکھا گیا ہیں بڑا خوشحال اور جمہوری ملک ہے فیکٹریاں ہیں۔تمام افراد کو روزگار میسر ہے غرض کہ شہد اور دودھ کی ندیاں بہتی ہیں کا روداد سنایا جاتاتھا لیکن ایک تبدلی نے وہ سب کچھ عیاں کردیا کہ ہم دیکھ کر حیران رہ گئے لاکھوں بنگالی شہری اور طلباء سڑکوں پر نکل کر وزیراعظم حسینہ واجد کا تختہ الٹا دیا اور محترمہ مکافات عمل کی وجہ ہندوستان اڑگئیں جبکہ اس سے قبل حسینہ واجد نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کے گھر میں کام کرنے والا (جہانگیر عالم )چپراسی 400 کروڑ روپے کا مالک بن بیٹھا ہے۔جس کے بعد بنگلادیش کے مرکزی بینک نے جہانگیر عالم اور اس کی اہلیہ اور وزیراعظم سے متعلق کئی اداروں کے بینک اکاو¿نٹس کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔جبکہ جہانگیر عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ میرا نہیں خیال کہ وزیراعظم حسینہ واجد ان کی طرف اشارہ کررہی تھیں بہر حال وہ اب امریکا اپنی دوسری بیوی کے پاس فرار ہوچکا ہے۔جہانگیر عالم کے پاس کروڑوں مالیت کی گاڑی اور ایک تین منزلہ پتعیش گھر بھی ہے جب کہ اس کا لائف اسٹائل بھی شاہانہ ہے۔یہی نہیں بلکہ ایک اور واقعہ رونما ہوا جو بنگلہ دیش میں اس جمہوری حکومت کاپول کھول دیایہ کہ بنگلہ دیشی بیرسٹر احمد بن قاسم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑیاں پہنا کر آٹھ سال میں پہلی بار خفیہ جیل ا?ئینہ گھر "ہاو¿س آف مررز"سے باہر نکالا گیا اسے آذان تک سننے نہیں دیتااس سیاسی تبدیلی میں انہوں نےپستول کی آواز سن کر اپنی سانسیں روک لیں پھر مارنے کی بجائے حسینہ واجد کے کارندوں نےانہیں ڈھاکہ کے مضافات میں ایک کار سے زندہ اور آواز کرکیچڑ والی کھائی میں پھینک دیاانہیں قومی بغاوت کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا جو ان کی اچانک رہائی کا باعث بنی احمد بن قاسم کو ان کے والد جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی کی وجہ سے اغوا کیا گیا تھاوہ اپنے والد کا کیس لڑ رہے تھے جب انہیں اغوا کیا گیااور اغوا کے چار دن بعد ان کے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ہاوس آف مررز جسے آرمی انٹیلی جنس چلاتی تھی مطلب کہ ایک قیدی اپنے آپ کے سوا کسی دوسرے انسان کو نہیں دیکھ سکتا ایک ایسی جگہ ہے۔
اب آئیں ذراہمسائیہ ملک کی سیاسی اور جمہوری ترقی کی جانب دیکھ لیتے ہیں کل ہی کے ہندوستانی اخبار کے اداریہ میں لکھا تھاکہ "پندرہ اگست کو پورے ہندوستان میں یوم آزادی منائی جاتی ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جنگ آزادی کا مختصر تذکرہ کیاجائے اور اس بات کا بھی تذکرہ کیا جائے کہ کیا ہمارا ملک واقعی ایک جمہوری اور آزاد ملک ہے ؟ کیاہم ہمارے ملک میں آزادی سے سانسیں لے رہے ہیں؟ کیا سچ مچ ہمارے ملک کو اس وقت آزاد جمہوری ملک جس میں سب کے حقوق یکساں اور برابر حاصل ہوتے ہیں؟ کہے جانے کا حق ہے ؟ کیا ہند کا ہندو،مسلم ، سکھ، عیسائی آپس میں سب بھائی بھائی کے مصداق ساروں کو جینے، زندہ رہنے ، ہر ایک کو اپنے مذہب اور عمل پر قائم و دائم رکھنے کا پورا پورا حق دیا جارہاہے؟"
یہ میں نہیں کہتابلکہ کل ہی اورنگ آباد ٹائمزاخبار کا اداریہ تھا اسی طرح کل کے ہندوستان ٹائمز میں کالم نگار مجاہد عظیم آبادی اس طرح رقمطراز ہیں "
آج کے دور میں بعض عناصر یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے تحریک آزادی (ہندوستان) میں کوئی قابل ذکر کرادار ادا نہیں کیا یہ بات نہ صرف تاریخ سے ناواقف کا اظہار ہے بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش کرنا ہے "۔جی تو دیکھا ہندوستان میں مسلمانوں کا حال؟ 
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہاں کی حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ ہے یا سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہاہے لیکن یہاں عوام میں ملکی حب الوطنی کا فقدان ہے جبکہ باقی ملکوں میں مسائل ہونے کے باوجود عوام ملکی حالات کو جواز بناکر اپنے ہی ملک، تاریخ کے خلاف دل کا بھڑاس نہیں نکالتے۔جو آزادی ہمیں اور آپ کویہاں وطن عزیز پاکستان میں حاصل ہے شاید کوئی ملک ایسا ہوامریکہ قانون ,184 FAM 10کے مطابق آپ میڈیا پر مندرجہ ذیل چیزیں نشر نہیں کرسکتے۔
کوئی ایسا مواد پوسٹ کرنا،ای میل کرنا، بھیجنا، یا بصورت دیگر مہیا کرنا جو غیر قانونی، نقصان دہ، دھمکی آمیز، بدسلوکی والا، ہراساں کرنے والا، تڑا مڑا، ہتک آمیز، بے ہودہ، فحش، توہین آمیز، کسی دوسرے کی رازداری میں دراندازی کرنے والا، امتیازی سلوک کا حامل، نفرت انگیز، یا نسلی، ثقافتی یا کسی دوسرے حوالے سے قابل اعتراض ہو۔ایسا مواد مہیا کرنا جسے آپ کو کسی قانون یا معاہداتی یا امانتی تعلقات کے تحت مہیا کرنے کا حق حاصل نہ ہو (مثلاً رازداری کی متقاضی معلومات، اندرونی بھیدی ہونے کی حیثیت سے علم میں آنے والی معلومات، ملکیت اور ملازمت کے فرائض کی ادائیگی کے نتیجے میں ملنے یا بتائی جانے والی معلومات) یا معلومات کو افشا نہ کرنے کے معاہدوں کے تحت حاصل ہونے والی معلومات کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔مجھےافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہمارے ہاں حتیٰ کہ قومی اخبارات میں ایسے موضوعات و کیسز پر بھی کالم لکھے جاتے ہیں جو ابھی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔
آپ کو علم ہوگا کہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر تنقیدی پوسٹس کرنے پر سعودی عرب میں ایک استاد کو عدالت کی جانب سے 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک ہماری بے لگام سوشل میڈیا ! اے کاش ہم خود اپنے گریبانوں میں دیکھ کر اس آزادی کی قدر اور میڈیا کا درست استعمال کریں۔

ای پیپر دی نیشن