حضرت علی ابن موسی الرضاؓ

امام جعفر صادق ؒ نے شہادت سے قبل اپنے فرزندامام موسی کاظمؒ سے فرمایا تھا عنقریب تمہارے یہاں ایک فرزند پیدا ہونے والا ہے جو عالم آل محمدؐ ہو گاکاش میں اس کے زمانے کو درک کرلیتا۔امام علی رضاؒ(المعروف امام ضامن )نے اپنے دادا بزرگوار حضرت امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے ٹھیک 16روز بعد11ذیقعد148ھ صفحہ ارضی پر قدم رکھا۔ آپ کا اسم گرامی علی ؑکنیت ابو الحسن القاب صابر‘ذکی‘ولی ‘رضی ہیں سب سے زیادہ مشہور لقب رضاہے ۔علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کو ’رضا ‘ اس لئے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوند عالم ،رسول اکرم ؐ ،آئمہ اور تمام مخالفین و موافقین آپ سے راضی تھے (اعلام الوریٰ)
امام ضامن ؒ کی نسبت سے آج بھی پوری اسلامی دنیا میں وعدوں کے بھرم ،رشتوں کی مضبوطی ،خیر و برکت کے حصول اورسفر میں سلامتی کیلئے امام ضامن باندھا جاتاہے۔ مامون الرشید نے اپنی گرتی ہوئی شہرت کو سنبھالا دینے کیلئے آپ کو اپنا ولی عہد مقرر کرکے آپ کے نام کا سکہ بھی جاری کیا۔ خیر و برکت کیلئے آپ کے نام کے سکہ کو پوری دنیا کے مسلمان سفر یا مشکل میں اپنے ساتھ رکھنے لگے اور اس زمانے سے یہ رسم آج بھی جاری ہے ۔آپ کا شجرہ نسب 6واسطوں سے  خیر البشررسول خداؐ محمد مصطفی ؐ تک جا پہنچتا ہے ۔آپ کی والدہ گرامی کا اسم گرامی نجمہ جبکہ بعض مقامات پر خیزان‘ثمانہ ‘طاہرہ اور بعض دوسرے نام بھی منقول ہیں ۔ یہ عظیم ترین خاتون اپنے زمانے میں انسانی کمالات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کے ساتھ عزت و حرمت میں بے مثل تھیں ۔آپ کے والد گرامی امام موسیٰ بن جعفر الکاظم ؒ کو باب الحوائج کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔امام شافعی کا مشہور قول ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم کا مزار قبولیت حاجات کا ذریعہ ہے۔ 
علامہ عبد الرحمن جامی تحریر فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر اپنے عہد میں کوئی امام عل  بن موسیٰ الرضا کی مثال و نظیر نہ تھاآپ کی باتیں پر ازحکمت ،عمل درست اور کردار  صائب تھاآپ علم و حکمت سے بھرپور تھے (شواہد النبوۃ )۔علامہ عبید اللہ لکھتے ہیں کہ ابراہیم ابن عباس کا کہنا ہے میں نے علی بن موسی الرضا سے بڑا عالم دیکھا ہی نہیں (ارجح المطالب صفحہ 255)۔آپ ہر زبان میں اور ہر لغت میں فصیح و دانا  تھے (روضۃ الاحباب)۔رجال کشی ،دمعۃساکبہ میں ہے کہ آپ اہل زمانہ میں اعلم ترین اور کثیر الصوم و عبادات تھے ۔
امام علی رضا ؒ کا دور امامت اس زمانے سے قریب تر تھا جسے افکار و عقائد و نظریات کے ٹکرائواور انہیں دوسری زبانوں میں منتقل کرنے بالخصوص یونان و سکندریہ کی تصنیفات و تالیفات کے عربی تراجم کا دور کہا جاتا ہے۔اس دور میں مختلف قسم کے نظریات اسلام میں پھیلنے لگے ۔ جبکہ اسلام دشمنوں کو جواب دینے کیلئے مسلمانوں کی واحد مرجع گاہ امام رضاؒ کا پرنور وجود تھا۔امامؒ اس دور میں مذاہب و ادیان کے مختلف علماء کو دین اسلام کے حقائق سے روشناس فرماتے۔آپ  نے مباحث  میں تثنیت (دو خدائوں)تثلیث (تین خدائوںکا عقیدہ رکھنے والے عیسائی )‘ یہودیوں ‘دہریوں‘ بے دین کمیونسٹوںکو علم و دانش کے ذریعے لاجواب کردیا۔مامون الرشید عباسی کے دور میں ایک نصرانی عالم ’’جاثلیق‘‘تھا جو اکثر اہل اسلام کو اس بات سے لاجواب کردیتا کہ ہمارے نبی حضرت عیسی ٰ ؑ کی نبوت اور کتاب پر مسلمانوں اور عیسائیوں سب کا اتفاق ہے ۔جبکہ مسلمانوں کے نبیؐ کی ذات اختلافی ہے ۔جب اس کا مناظرہ امام رضا سے ہوا تو آپ نے اس کو یہ جواب دیا کہ  مسلمانوں کا اتفاق اس عیسیٰ نبی پر ہے جنہوں نے اپنے حواریین کو حضرت محمد مصطفی ٰؐ کی نبوت کی بشارت دی تھی اور ہم اسی کتاب عیسیٰؑ کی تصدیق کرتے ہیں جس میں نبی آخر الزمان ؐ کی بشارت درج ہے ۔اس پر جاثلیق لا جواب ہوگیا۔آپ نے فرمایا کہ اگر حضرت عیسی ٰ معاذ اللہ خدا تھے تو روزہ اور نماز کس کیلئے رکھتے تھے ؟مردے زندہ کرنے کی دلیل کے جواب میں آپ نے حضرت حزقیل کا 60برس بعد 35ہزار لوگوں کے زندہ کرنے ،حضرت ابراہیم کا پرندوں کو زندہ کرنا،حضرت موسی ٰ اور رسول خداؐ کی مثالیں دے کرفرمایا کہ ان معجزات کی بناء پر کیا ان انبیاء کو بھی خدا مان لینا چاہئیے ؟اس پر جاثلیق کے پاس ان دلائل کا کوئی جواب نہ تھا۔اور وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
ایک یہودی عالم ’’راس الجالوت ‘‘ جسے اپنے علم پر بڑا تکبر اور ناز تھا جب اس کا مناظرہ امام رضاؑ سے ہوا تو آپ نے اس سے توریت کی ایک عبارت کا مطلب پوچھا جس کا جواب وہ نہ دے سکا۔جس کی فصاحتاً تشریح جب امام علی رضا ؒنے فرمائی تو وہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔تاریخ کی کتب ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جب ایسے ہی بہت سے مجوسی ،دہریے اور دیگر علماء کو امام علی رضا ؒنے دلائل سے اسلام کی حقانیت تسلیم کروائی۔
امام رضاؒ طوس جاتے ہوئے ایک روز جب نیشا پور سے گزرے جو علماء کا گڑھ تھا تو وہ امام سے عرض گزار ہوئے حضور اپنے جد بزرگوار کی کوئی حدیث بیان فرمائیے تاکہ صفحات قلوب پر بطور یادگار رقم رہے۔امام جنہوں نے سادہ لباس زیب تن کررکھا تھا اپنے ہودج سے اپنے نورانی چہرے سے عوام کو منور کیا تولوگ حسن یوسف کو فراموش کربیٹھے۔مکمل سناٹا چھا گیا ہر طرف خاموشی کا پہرہ لگ گیا ۔اس وقت امام رضاؒ نے وہ حدیث رسول ؐجسے دنیائے احادیث میں سلسلۃ الذہب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے بیان فرمائی۔جس کا ماحصل یہ ’’…اسلام کی بنیاد توحیدی جہاں بینی پر استوار ہے اور  کلمہ لا الہ (کلمہ توحید )ایک مضبوط و مستحکم الہی قلعہ ہے جو افراد اس قلعہ میں داخل ہوگئے وہ عذاب الہی سے نجات پائیں گے‘‘ ازاں بعد معصوم ؒ نے تھوڑی دیر توقف فرمایا اور آفتاب امامت نے ہودج سے دوبارہ طلوع کیا آپ  نے ارشاد فرمایا 
لکن بشرطہا و شروطہاو انا من شروطہا لیکن ایک شرط اور کچھ شروط کے ساتھ اور اسکی شروط میں سے ایک میں(یعنی اہلبیت رسول ؐ)بھی ہوں۔(تاریخ نیشاپور)معروف اہلسنت عالم علامہ ابن حجر مکی تحریر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو لکھنے والوں کی تعداد 20ہزار سے زائد تھی ۔احمد بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد کو کسی مجنون پر دم کروں تو اس کا جنون جاتا رہے ۔
امام رضا  کے طبی اور غذائی حوالے سے فرامین اسلامی طب کا ماخذ ہیں جن سے دنیائے طب آج بھی شرفیاب ہو رہی ہے ۔عباسی خلافت کے دوران نامور اطباء اور حکیم موجود تھے لیکن مامون الرشیدکسی بھی مسئلہ میں امام رضا ؒسے رجوع کرتا کہ یہی وارث علم ِرسول ؐ ہیں۔آپ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرے گا نفع میں رہے گا  جو غفلت برتے گا وہ گھاٹے میں رہے گا جو شخص اللہ سے ڈرے گا وہ دوسروں سے بے خوف رہے گا جو شخص نصیحت حاصل کرے گا وہ بینا (بابصیرت )ہوجائیگا جو شخص بینا ہوجائیگا وہ سمجھ جائیگا اور جو شخص سمجھ جائے گا وہ صاحب علم و دانا ہوجائیگا۔امام رضا ؒنے اپنے تمام فرائض و ذمہ داریوں کو بہ طریق احسن پورا کیا اور دنیائے انسانیت کو بتلا دیا کہ ہمیں اذیتوں‘تکلیفوں کے ذریعے نہ تو جھکایا جاسکتا ہے نہ راہ حق سے ہٹایا جاسکتا ہے۔قید و بند ہماری عادت اور شہادت ہمارے لیے سعادت ہے۔اما م علی بن موسیٰ الرضا اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد 35سال کی عمر میں فرائض امامت نبھانے لگے اور یہ سلسلہ 203ہجری تک رہا۔جب 23ذیقعد کو آپ نے جام شہادت نوش کیا اس وقت آپ کی عمر شریف 55سال تھی۔آپ کا مدفن مشہد مقدس ایران میں ہے اور آپ کی قبر اطہر ہر دور میں مرجع خلائق رہی ہے۔

آغاسید حامدعلی شاہ موسوی

ای پیپر دی نیشن