رانا زاہد اقبال فیصل آباد
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ بھارتی حکمرانوں کا پیدا کردہ ہے۔ مودی کی اداؤں اور ارادوں سے عیاں ہو رہا تھا کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں پاکستان پر جنگ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی ہندوستان کے متنازع ترین کردار رہے ہیں، ان کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، مسلمانوں کے خلاف نفرت ابھارنے میں اس کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے ہندو انتہا پسند تنظیم " آر ایس ایس" سے تربیت پائی ۔ انہوں نے مرکز میں حکومت حاصل کرنے کے لئے کشمیریوں کی تحریک اور پاکستان کے خلاف بلند آہنگ میں بات کی۔ خیال یہی کیا جا رہا تھا کہ انتخابات میں آستینیں چڑھا کر تقریریں کر کے لوگوں میں جوش ابھارنے کے بجائے اب وہ ہوشمند رہنما ثابت ہوں گے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ مذہبی منافرت کو جو ان کے کردار کے ساتھ جڑ چکی ہے کو اپنے جسم سے کیسے دور کر سکتے تھے۔
اب ان کا خیال تھا کہ ان کے پاس چونکہ جدید اسلحہ ہے اس لئے انہوں نے ایک بار پھرجنگ مسلط کرنے کی کوشش کی کیونکہ مودی اور اس کے حواری پورے ساؤتھ ایشیا کو گریٹر انڈیا اور چین کا مقابلہ کرنے کے لئے واحد راستہ اکھنڈ بھارت سمجھتے ہیں۔پاکستان کی فوجی حکمتِ عملی اور دلیرانہ اقدامات کی بناء پر مودی کی چھیڑی ہوئی جنگ کو بھارت کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی شکست میں تبدیل کر دیا۔ صدر ٹرمپ کی مداخلت، امریکی وزیرِ خارجہ مائیک روبیو کی کوششوں اور دوست مسلم ممالک کے تعاون اور حمایت سے عارضی جنگ بندی ممکن ہوئی، دوسرا یہ کہ امریکہ رافیل کی تباہی پر خوش نظر آ رہا ہے کیونکہ اب اس کی بھارت کے ساتھ F-35 کی ڈیل ہو جائے گی اور اس کے علاوہ اب دنیا میں اس کے F-35 طیاروں کی مانگ بھی بڑھے گی۔
اس جنگ کے نتیجے میں ایک لمبے عرصہ کے بعد کشمیر کا ایشو ایک بار پھر سے دنیا کی نظروں میں آ گیا ہے۔ دنیا کو سمجھ جانا چاہئے کہ مستقل امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل بنیادی عمل ہے۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ماہر سٹینلے والپورٹ نے گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں گاندھی کی زندگی پر شائع کتاب میں کشمیر کے بارے میں گاندھی کے ایسے خیالات پیش کئے ہیں جن کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے;
کشمیر کے دورے کے بعد 29 جولائی 1947ء کو گاندھی نے اعلان کیا کہ " کشمیر کے عوام سے دریافت کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ؟ وہ جس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں انہیں اسی کے ساتھ الحاق کرنے دیا جائے۔ والپورٹ مزید لکھتا ہے کہ گاندھی جی کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے حقیقی حکمران اس ریاست کے عوام ہیں، اگر حکمران راجہ عوام کا خادم نہیں ہے تو وہ راجہ نہیں ہے۔ والپورٹ گاندھی کے ان الفاظ کے بعد اپنے تجزیے میں لکھتا ہے کہ "اگر پنڈت نہرو گاندھی جی کی بات مان لیتے تو پاک و ہند اور کشمیر کے کتنے ہی لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ اگر آزاد ہندوستان میں اتنی جرأت ہوتی کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے لئے گاندھی کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کر لیتا تو وہ کشمیر میں فوراً استصواب پر رضا مند ہو جاتا اور آئندہ نصف صدی تک ایسی جنگوں میں نہ الجھتا جن میں نہ پاکستان کے ساتھ کوئی سمجھوتا طے پایا اور نہ کشمیر کے مصیبت زدہ عوام کی قسمت کا فیصلہ ہوا "۔
آج بھی وہی صورتحال ہے کہ پاکستان کی تمام قوتیں بھارت کے ساتھ بہرحال اچھے تعلقات کی خواہشمند ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھی وہ پر امن اور منصفانہ عمل کی حامی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس بھارت میں ایک کثیر تعداد موجود ہے جو مذہبی انتہا پسندی کی قائل ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف رہتی ہے۔ اس جنگ کے بعد صورتحال بدل چکی ہے اور اب پاکستان کو اپنے قومی مفادات بالخصوص مسئلہ کشمیر پر اس صورتحال سے فائڈہ اٹھانا چاہئے۔ صدر ٹرمپ جو جنگ بندی کے عمل میں سہولت کار کے طور پر سامنے آئے ہیں ان سے کشمیری مظلوم توقع کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج تک کشمیر کے سلسلہ میں امریکہ کی کوئی پالیسی نہیں ہے ماسوائے ا س کے کہ جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ معاملے کو ایسے ہی ٹھنڈا کرنے کے لئے سرگرمِ عمل ہو جاتا ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ اور دیگر امریکی حکومتی عہدیداروں کی کوششوں سے جنگ بندی ممکن ہوئی ہے بھارتی میڈیا بلاوجہ کا واویلہ کر رہا ہے ورنہ مودی جنگی جنون میںا ندھا ہو کر پاکستان کے خلاف نہایت نفرت انگیز اور معاندانہ اقدامات میں انتہا کی طرف بڑھا اور پاکستان اور دنیا کے سمجھانے کے باوجود خود سری اور زعمِ بالادستی میں اس حماقت کا ارتکاب کر کے دیکھ لیا جس سے پاکستان گریز کا انتباہ کر رہا تھا، اب پاکستان کا صبر و ضبط جواب دے گیا تھا اور وقت تھا کہ مودی اور اس کی جنگی جنون میں مبتلا کابینہ کو سبق آموز جواب کا، چنانچہ ہماری شیر دل افواج نے آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے چند لمحوں میں بساط پلٹ دی۔ جنگ بندی بھارت کے مفاد میں ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بھارتی حکومت کے قابو سے باہر ہونے کا ادارک سب کو ہے۔ بھارت ہر بار کشمیر میں ہونے والے کسی بھی واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا دیتا ہے جب کہ چند سال قبل بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کٹجو نے مودی کو انتباہ کیا تھا کہ کشمیری حریت پسندوں نے جس طرح کی تحریک شروع کر رکھی ہے وہ دن دور نہیں جب کشمیری حریت پسند وقت اور جگہ کا خود تعین کر کے بھارتی فوجیوں پر چھاپہ مار حملوں کا سلسلہ تیز کریں گے جن میں ہربار بھارتی فوجیوں کا جانی نقصان ہو گا اور بھارتی فوج کے لئے ان کے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہو گی کیونکہ کشمیر کی تقریباً پوری آبادی بھارت کے خلاف اور حریت پسندوں کے ساتھ ہے۔ انہیں عام لوگوں کی جانب سے معلومات، خوراک اور محفوظ ٹھکانے فراہم کئے جاتے ہیں۔ اس لئے بھارتی فوجی غصے میں عام شہریوں کو ماریں گے جس کے نتیجے میں ویت نام جیسے قتلِ عام کے واقعات پیش آئیں گے اور مقبوضہ کشمیر میں بڑی تعداد میں لوگ مارے جائیں گے، جس سے پاک بھارت جنگ چھڑ سکتی ہے اور پھر یہ سوچنا محض خوش فہمی ہو گی کہ وہ روایتی ہتھیاروں کے استعمال تک محدود رہے گی۔ خود بھارتی دانشور اس بات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ بھارت 10 کیا 70 لاکھ فوج بھی کشمیر میں لگا دے تحریکِ آزادی کو دبا نہیں سکتا جب کہ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں عالمی امن تہہ و بالا ہو جائیگا، لہٰذا بھارتی میڈیا، عوام اور اپوزیشن کو ٹرمپ کی ثالثی میں مسئلہ کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ کیونکہ خطے میں کشیدگی کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ تنازع کشمیر کا منصفانہ حل ہے اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔