رضائے الہٰی ‘ خوشنودی رسول محتشم میں لپٹا…عشرہ ذوالحج

عشرہ ذوالحج… محبت ‘عقیدت‘ رضائے الہٰی ‘ خوشنودی رسول محتشمؐ اور اپنی آرزوں اور خواہشوں کو خالق کائنات کے لیے قربان کر دینے کے سوا کچھ نہیں۔ حج اور قربانی کے اس ماہ میں ماں اور بچے کی محبت‘ موددت اور مامتا کے جلوں نے پورے مہینے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔  چھ ماہ کا بچہ ‘ جنگل ‘ ریگستان ‘ بیابان ‘ کالے پہاڑوں کی ہیبت ‘ دھوپ کی شدت اور گرمی کی حدت نے مامتا کو بار بار آزمائش میں گزرا مگر ہر بار حضرت حاجرہؑ عزت ‘ کامرانی اور اعجاز کے بلند منصب پر سرفراز ہوئیں۔ صفاء اور مروا ( پہاڑوں ) کے درمیان ساتویں چکرکے دوران غریب الوطنی، کم سن  اور پیاسے لخت جگر کا بوجھ اٹھائے حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ تھک کر گڑ پڑیں عین اسی لمحے انہیں بچے کے قریب کوئی مہربان کھڑا نظر آیا، وہ ہوش وحواس قائم کرکے پہاڑی سے نیچے اتریں اور بچے کے قریب گئیں تو دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا البتہ ننھے اسماعیلؑ کے قدموں سے چشمہ جاری تھا جس کا پانی مسلسل  بڑھ رہا ہے۔ آپؑ نے دور سے آواز دی (حکم دیا) زم زم… زم زم (رک جا‘ رک جا) رسول خداؑ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر اماں حاجراؑ پانی کو رکنے کا اشارہ حکم نہ دیتیں تو پورا عرب اس (پانی )کی لپیٹ میں آجاتا یہی حضرت اسماعیلؑ جب 10 برس  کے ہوئے تو حضرت ابراہیمؑ انہیں اللہ کی رضا اور حکم بجا لانے کے واسطے زبحہ کے لیے تیار ہوگئے۔ آپؑ نے خوابی اشارے کی بابت جب صاحب زادے سے بات کی تو حضرت اسماعیلؑ نے جواب دیا آپؑ خدا کا حکم بجا لائیں ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں آپ پائیں گے !!  حضرت اقبالؒ یاد آگئے

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آ داب فرزندی
 نبی محتشم ؐکے جد امجد حضرت ابراہیم ؑکا ہر ہر عمل صبح قیامت تک یہ شہادت دیتا رہے گا کہ زندگی اللہ کی رضا کے بغیر کچھ نہیں!! آپ خالق کائنات سے عشق کریں پر دیکھیں عنایات ،انعا مات اور اعزازات کس طرح آپ پر نثار ہوتے ہیں۔ یاد ہے آتش نمرود کا جان لیوا امتحان، یہ جاں گسل آزمائش بھی حضرت ابراہیم ؑ کے پائیہ استقلال کو متزلزل نہ کرسکی۔ حضرت اقبال ؒکو کہنا پڑا کہ آج تک عقل اس سوال کا جواب نہ دے سکی کہ آگ جس کا مشن جان ومال کو بھسم کرنا تھا اس نے اپنا کام کیوں نہیں کیا؟
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا ئے لب بام ابھی
اللہ کریم ہم سب کو سنت ابراہیمی ؑپر عمل کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ یہ بھی یاد رکھیں سنت خلیل ؑ صرف جانوروں کو قربان کرنا نہیں، اصل سنت اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کو اللہ اور اس کے عظیم رسولؐ کے لیے قربان کرنا ہے۔ جب ہم اپنی زندگی اور خواہشوں کوپیغمبر اسلام کے تابع کرلیں گے تب جاکرزندگی اصل مقصد سے جڑے گی۔دعا کریں اللہ کریم غزہ کے باہمت مسلمانوں کو آزادی نصیب کرے ۔ مسلمان حکمرانوں کو اس اتحاد اور اس کی برکت سے نوازے جس کے بل پروہ باطل کو ظلم وانصافی کا جواب ہی نہیں بلکہ ان کی گردن بھی توڑ سکیں، درس قربانی یہی ہے اور پیغام اقبال بھی!! 
اخوت اس کو کہتے ہیں چھبے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر اک پیرو جواں بے تاب ہو جائے
عید الاضحی خاص تہوار ہے جسے پوری دنیا کے مسلمان  نہایت ہی جوش و خروش سے مناتے ہیں عید الاضحی ایک بہت بڑا تہوار ہے جو بنیادی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان اور اللہ تعالی پر ان کی عقیدت کو بیان کرتی ہے. عید الاضحی ہمارے ایمان میں اضافے کا بھی ذریعہ ہے کہ انسان کی اصل شان اور بڑائی خود کو مکمل طور سے اللہ جل شانہ کی مرضی کے تابع کر  دینے میں ہے اور یوں ہر قسم کے وسوسوں اور شکوک و شبہات سے بچتے ہوئے اللہ کے احکام پر جان دینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے. عید الاضحی کے موقع پر کی جانے والی قربانی سنت ابراہیمی کی پیروی کا عملی نمونہ ہے. انسان کا کوئی بھی عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے. عید الاضحی کیونکہ ایک بڑی قربانی کا دن ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زبردست قربانی کی یادگار ہے اور اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ اصل خوشی  اور حقیقی لطف دنیا کے مال و متاع اور چیزیں حاصل کرنے میں نہیں ہے بلکہ اپنے اپ کو مالک حقیقی کی رضا کے مطابق اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کر دینے میں ہے. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تیز چھری بیٹے کے گلے پر چلائی لیکن اللہ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور ایک جانور بھیج کر ذبح کروا دیا اور اللہ تعالی نے فرمایا( تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا) یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بغیر حیل و حجت کیے اللہ رب العزت پر کامل یقین کے ساتھ اپنے اپ کو اللہ تعالی کے حکم پر قربانی کے لیے پیش کر کے ایسی عالیشان مثال قائم کر دی کہ جو قیامت تک کے لیے اہل ایمان والوں کے لیے نور ہدایت کا کام کرتی رہے گی. قربانی کا قرانی مفہوم  غرض سے پاک ہونے اور اسلامی جذبہ پیدا کرنے پر مرکوز ہے تاکہ انسان کے اندر باطل کی طاغوتی قوتوں سے مقابلہ کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے اور انسان بندہ بن کر اللہ تعالی کی محبت حاصل کر لے اور حق و سچائی کا علم بردار بن سکے. مسلم امہ کی یکجہتی اور یگانگت  کے لیے اسلام کا واضح پیغام یہ ہے کہ وہ مسلمان جن کو اللہ رب العزت نے دنیا کی نعمتوں اور ثروتوں سے سرفراز کیا ہے وہ اپنے مال میں سے غرباء￿  و مساکین کے لیے بھی مناسب حصہ خرچ کریں. لہذا ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ نہ صرف خود بلکہ ساری امت مسلمہ میں قربانی والی صفت پیدا ہو جائیں اور اللہ کے احکام کی مقابلے میں اپنی خواہشات کو قربان کرنا ہم سب کے لیے اسان ہو جائے….

ای پیپر دی نیشن